سازش کا تصور
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہاکہ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی قو م پر زوال کیسے اور کب آتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مسلمانوں کے کیس کو لیجئے۔ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کے بڑے خطّے میں حالتِ اقتدار میں رہے۔ نوآبادیاتی دور میں مغربی قوموں کا عروج ہوا، اس وقت مسلمان تہذیب اور سیاست دونوں میں مغربی قوموں کے مقابلے میں مغلوب ہوگیے۔ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں میں احیاء نو کی تحریک شروع ہوئی۔
اُس دور کے مفکرین (شبلی نعمانی، محمد اقبال، ابوالکلام آزاد، سید جمال الدین افغانی، امیر شکیب ارسلان وغیرہ) نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کو یاد دلا کر ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس شاندار ماضی کو دوبارہ جدید تاریخ میں واپس لائیں۔ مگر یہ الٹی تدبیر تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ مہلک نفسیات پیدا ہوئی جس کو ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس نفسیات نے مسلمانوں کو فخر ماضی میں مبتلا کردیا۔ اور فخر کی نفسیات کسی حقیقی عمل کے لیے مستقل رُکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تدبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دو طرفہ برائی میں مبتلا ہوگیے۔ اپنے بارے میں فخر کی نفسیات، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات۔ اُس دور کے مصلحین نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا ہے وہ دوسری قوموں کی سازش کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا زوال خود اپنی کسی کوتاہی کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ دوسروں کی سازش کے نتیجے میں ہوا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ اس غلطی کانتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے احیاء نو کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ کرسکے۔
سازش کا نظریہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ جب بھی دو قوموں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہمیشہ بعض ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کو ’’سازش‘‘ کہاجاسکے۔ اس قسم کے واقعات ہمیشہ اور ہر قوم کی تاریخ میں موجود رہتے ہیں۔ خودمسلم تاریخ میں بھی اِس قسم کے انفرادی واقعات پائے جاتے رہے ہیں۔ مگر تجزیہ نگار کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی معاملے میں فیصلہ کن سبب (decisive factor)کیا ہے۔ کسی جُزئی واقعے کو لے کر اس کو جنر لائز کرنا اور اسی کو زیرِ بحث واقعے کا اصل سبب قرار دینا سخت غیر علمی بات ہے۔ اس قسم کے جزئی واقعات کو لے کر اگر رائے قائم کی جائے تو مسلمانوں کی فتوحات بھی ’’سازش‘‘ کا نتیجہ دکھائی دے گی۔
تبصرہ نگار کو چاہیے کہ وہ جُزئی واقعات کو نظر انداز کرکے اُن کلّی اسباب کو دریافت کرے جو زیر بحث واقعے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ پوری رائے غلط ہوجائے گی۔ مثال کے طورپر انگریز جب ہندستان میں آئے تو یہاں مسلم سلطنت قائم تھی۔ انگریزوں نے کامیابی کے ساتھ مسلم سلطنت کو ختم کیا اور انڈیا میں اپنا سیاسی اقتدار قائم کرلیا۔ اِس واقعے کو عام طور پر سازش کا نتیجہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ رُوہیلوں کا انگریز سے مغلوب ہونا، در اصل اودھ کے مسلم نواب کی غدّاری کی بنا پر ہوا۔ ایک مسلم شاعر نے کہا ہے:
نوّابِ اودھ نے جو یہ پاپڑ نہ ہوں بیلے
انگریز سے مغلوب نہ ہوسکتے روہیلے
اِس قسم کی باتیں تاریخ کے ناقص مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ انگریزکا ہندستان میں غلبہ اِس لیے ہوا کہ وہ جدید طاقتوں سے مسلّح ہو کر یہاں آئے تھے، ایسی طاقتیں جن کا توڑ اس وقت کے مسلمانوں کے پاس موجود نہ تھا۔ انگریز–مسلم تصادم کے دوران بعض جُزئی واقعات پیش آئے جیسا کہ ہر تصادم کے وقت پیش آتے ہیں۔ مگر ان واقعات کی حیثیت محض ضمنی ہے۔ ہندستان میں انگریزوں کی کامیابی کا راز اس قسم کا کوئی جزئی سبب نہ تھا۔ وہ مکمل طورپر ایک کلی سبب کے تحت پیش آیا، اور وہ دونوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن تھا۔ اگر یہ جزئی واقعات نہ پیش آتے تب بھی انگریز یقینا کامیاب ہوتے۔