مسلمان نئے دَور میں

امریکا میں مسلمان تقریباً ۷ ملین کی تعداد میں رہتے ہیں۔ ایک حالیہ اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ اِس وقت امریکا کی فی کس آمدنی ۳۴ ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ لیکن جہاں تک امریکی مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کی فی کس آمدنی ۴۲ ہزار ڈالر سالانہ ہے، یعنی دوسرے امریکیوں کے مقابلے میں تقریباً ۱۰ ہزار ڈالر زیادہ۔

تقریباً یہی معاملہ ہندستان کا ہے۔ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمان ہندستان کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار تھے۔ مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہندستان ان کے لیے ایک پرابلم کنٹری ہے۔ لیکن مختلف واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں کے اوپر شعوری یا غیر شعوری طور پریہ حقیقت کھلی کہ ہندستان میں مسلمانوں کے لیے ایسے مواقع موجود ہیں جو خود مسلم ملکوں میں بھی نہیں ہیں۔ اس کے بعد یہاں کے مسلمان تیزی سے ترقی کی دوڑ میں سرگرم ہوگیے۔ اب یہ حال ہے کہ ہندستان کا مسلمان نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ امریکا کی طرح ہندستان میں بھی مسلمان اقتصادی ترقی کے معاملے میں دوسری قوموں سے آگے بڑھ جائیں۔

ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ ۵۷ مسلم ملکوں میں سے ہر ایک میں، کم و بیش، ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کا نظام ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ جب کسی ملک میں ڈکٹیٹر شپ آتی ہے تو وہاں سے دو بنیادی چیزوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے—امن اور آزادی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی کے لیے امن اور آزادی دونوں لازمی طور پر ضروری ہیں— یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی بنا پر مسلمان مسلم ملکوں میں زیادہ ترقی نہ کرسکے۔

امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمانوں کا ترقی کے راستے میں سرگرم ہونا اِس لیے ہے کہ یہاں جمہوریت ہے۔ یہاں سیکولر ازم اور آزادی کا ماحول ہے۔ یہاں ہر ایک کے لیے کام کرنے کے مواقع یکساں طور پر موجود ہیں۔ اِس لیے امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمان کسی رکاوٹ کے بغیر ترقی کے راستے میں سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی راہوں میں دوڑنا چاہتا ہے۔ انسان کی ترقی کے لیے اِس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں کہ اس کو تمام راہیں کُھلی ہوئی نظر آئیں۔ یہی معاملہ امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں ہوا۔

مسلم ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کیوں آئی۔ اِس کا سبب عام طورپر خود مسلم حکمرانوں کو سمجھتا جاتا ہے۔ مگر یہ بات یقینی طورپر غلط ہے۔ اِس ڈکٹیٹر شپ کا سبب تمام تر وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو اسلام پسند جماعتوں کے نام سے مشہور ہیں۔ اِن جماعتوں نے انتہائی بے دانشی کے ساتھ یہ کیا کہ نظامِ مصطفی اور قانونِ شریعت کے نفاذ کے نام پر اپنے ملکوں کے مسلم حکمرانوں کے خلاف انتہا پسندانہ تحریکیں شروع کردیں۔ یہ طریقہ مکمل طورپر وقت کے مصالح کے خلاف تھا۔ چنانچہ وہ الٹے نتیجے کا سبب بن گیا۔ یہی نام نہاد اسلام پسندانہ سیاست واحد سبب ہے جس کی وجہ سے مسلم ملکوں میں ہر جگہ ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہوگیا۔

مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کی اسلام پسند تحریکیں کسی مثبت فکر کے تحت نہیں اٹھیں وہ صرف حالات کے ردّعمل کے تحت اٹھیں۔ یہ دراصل رد عمل کی تحریکیں تھیں جن کو غلط طور پر اسلامی تحریک کا نام دے دیا گیا۔

اٹھارویں صدی عیسوی میں جب مغربی قومیں نئی طاقتوں کے ساتھ اُبھریں اور دھیرے دھیرے وہ پوری مسلم دنیا پر چھاگئیں۔ تہذیب اور سیاست دونوں اعتبار سے ان کا غلبہ مسلم دنیا پر قائم ہوگیا۔ یہاں تک کہ مغل سلطنت اور اسلامی سلطنت اور دوسری مسلم سلطنتیں یا تو ختم ہوگئیں یا مغلوب ہو کر رہ گئیں۔

یہ صورت حال پیش آنے کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کوئی ایجابی موقف اختیار نہ کرسکے۔ اُن کے درمیان جو ذہن اُبھرا وہ یا تو ٹکراؤ کا ذہن تھا یا تحفّظات کا ذہن۔ اِس ذہن کے تحت، مسلمانوں نے جہاد کے نام پر ٹکراؤ شروع کردیا۔ کچھ لوگوں نے شریعت کے تحفظ کا نعرہ اختیار کیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ملّت کی شناخت خطرے میں ہے۔ اور وہ بطور خود ملت کی شناخت کی حفاظت میں مصروف ہوگیے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ جگہ جگہ مسلمانوں کا علاحدہ خطّہ بنانا چاہیے۔

اِس قسم کی تحفظاتی کوششوں پر اب تقریباً دو سو سال گذر چکے ہیں لیکن نتیجہ برعکس صورت میں ظاہر ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سوچ فطرت کے نظام کے خلاف تھی۔ فطرت کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر قائم ہے نہ کہ تحفّظ کے اصول پر۔ دنیا میں کبھی کسی گروہ کو تحفظ کے طریقے پر چل کر ترقی حاصل نہ ہوسکی۔

مسلم رہنماؤں نے مسلم حکومتوں کو اسلام کا ’’تحفظاتی قلعہ‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن اِس نام نہاد تحفظاتی قلعے میں مسلمان ترقی نہ کرسکے۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے سیکولر ملکوں کو انھوں نے مسلم دشمن کا ٹائٹل دیا تھا مگر انھیں ’’دشمن‘‘ ملکوں میں مسلمان سب سے زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ اِس لیے کہ مسلم ملکوں میں ہر جگہ نظریاتی انتہا پسندی کا ماحول ہے، اور نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ہمیشہ ٹکراؤ بڑھتا ہے نہ کہ ترقی۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں کھُلا ماحول پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ترقی کا عمل ہمیشہ کھلے ماحول میں جاری ہوتا ہے۔ نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ترقی کا عمل جاری ہونا ممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom