اللہ کا فیصلہ یا اجتہادی خطا
1947 سے پہلے کی سیاست میں انڈیا کے دوبڑے علماء نے دو الگ الگ موقف اختیار کیا۔ مولانا حسین احمد مدنی تحریک پاکستان کے خلاف تھے، اور مولانا اشرف علی تھانوی تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ اِس کی توجیہہ کرتے ہوئے ایک ہندستانی عالم نے لکھا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں سے ایک کو قیامِ پاکستان کا حامی بنا دیا تھا، تاکہ آگے چل کر اُس ملک کا قبلہ درست رکھنے اور وہاں حقیقی اور مکمل اسلام کے نفاذ کے لیے کام کرنے کا دروازہ علماء اور دینی قیادت کے لیے کھلا رہے۔ اور دوسرے کو تقسیم ملک کا مخالف بنا کر ایسے امکانات پیدا کردئے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی جان ومال اور اُن کے دینی وجود اور ملی تشخص کے تحفظ کے میدان میں یہاں کے علماء اپنا فرض ادا کرسکیں۔ جو کچھ ہوا، اللہ ہی کے فیصلے اور قضا وقدر کے نتیجے میں ہوا‘‘۔( مئی 2010)
اس معاملے کو اگر اللہ کے فیصلے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دونوں علماء اجتہادی خطا کے مرتکب ہوئے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز کو دشمن قرار دیا اور اُن کے خلاف سیاسی جنگ چھیڑ دی۔ یہ بلاشبہہ درست نہ تھا، کیوں کہ انگریز ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی اور اِس قسم کے دوسرے علماء بلا شبہہ ایک ایسی غلطی میں مبتلا ہوئے جس کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اس کو اجتہادی خطا قرار دیا جائے۔یہی معاملہ مولانااشرف علی تھانوی کا بھی ہے۔ پاکستانی لیڈروں نے ہندو کو حریف قوم قرار دیا اور ان کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ مولانا اشرف علی تھانوی کو چاہیے تھا کہ وہ اِس تحریک کی حمایت کرنے کے بجائے یہ اعلان کریں کہ ہندو ہمارے لیے مدعو کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کو حریف قوم کا درجہ دینا اور ان کے خلاف سیاسی لڑائی چھیڑنا درست نہیں۔ دونوں عالموں نے جو کچھ کیا، وہ صرف اُن کا اپنا ذاتی فعل تھا، اللہ کی سنت یا اللہ کے فیصلے سے اُس کا کوئی تعلق نہیں۔ اِس معاملے کو اگر یہ حیثیت دی جائے کہ وہ اِن علماء کی اجتہادی خطا تھی تو اِس سے کوئی اصولِ اسلام مجروح نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس کو اللہ کا فیصلہ قرار دیا جائے تو بلاشبہہ اُس سے اصولِ اسلام مجروح ہوتا ہے۔