نماز کے بغیر نجات نہیں
قرآن کی سورہ نمر 74 میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں جب لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ ہوجائے گا اور کچھ لوگ جنت میں اور کچھ لوگ دوزخ میں پہنچا دئے جائیں گے، اُس وقت جنت والے، جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے تم کوجہنم میں پہنچا دیا(ما سلککم فی سقر)۔ جہنم والے اِس کا جو جواب دیں گے، اُس کا ایک جزء ہوگا: لم نک من المصلین (المدثر:43) یعنی ہم نماز ادا کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
قرآن کے اِن الفاظ پر غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جامع کلمہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو اللہ رب العالمین کی وہ معرفت حاصل نہیں ہوئی جو ہمارے دل ودماغ کو بدل دے، جو ہمیں اللہ کے آگے جھکنے پر مجبور کردے، جو خود ایمانی تقاضے کے تحت ہم کو ایسا بنا دے کہ ہم اُس نظامِ عبادت میں شامل ہوجائیں جس میں اللہ کے بندے مل کر اللہ کے لیے نماز ادا کررہے تھے اور نماز کو اپنی روزانہ کی زندگی کا ایک لازمی جز بنائے ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ نماز معرفتِ خداوندی کا عملی اظہار ہے۔ جب ایک بندے کو اپنے خالق کی دریافت ہوتی ہے تو وہ بے تابانہ طورپر اُس کے آگے جھک جاتا ہے، وہ اس کے آگے سجدے میں گر جاتا ہے، جو کہ اِس بات کی علامت ہے کہ بندے نے اپنے پورے وجود کو اللہ کے حوالے کردیا ہے۔
نماز کی اعلیٰ صورت یہ ہے کہ وہ خشوع کی نماز ہو۔ اگر کسی کو بالفرض خشوع کی نماز حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کی کوشش اور دعا کرتے ہوئے اُس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پھر بھی مقرر اوقات پر رُٹین (routine) کی نماز پڑھتا رہے، تاکہ فرشتوں کے ذریعے موجودہ دنیا میں جو تصویر کشی ہورہی ہے، اس میں اگر اس کی صلاۃِ خشوع درج نہ ہو تو کم از کم اس کی رٹین کی نمازفرشتوں کے ریکارڈ میں آجائے۔ رٹین کی نماز اِس بات کا اعتراف ہے کہ— خدایا، میں خشوع کی نماز نہ پڑھ سکا۔تو اپنی رحمت سے میری رٹین کی نماز کو قبولیت کا درجہ دے دے۔