فرقان کیا ہے
قرآن کی سورہ نمبر 8 میں ارشاد ہوا ہے: یا أیہا الذین اٰمنوا، إن تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً (الأنفال:29) یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، تو وہ تم کو ایک فرقان عطا کردے گا:
Believers, If you fear God, He will grant you a criterion (to judge between right and wrong)
اِس آیت میں فرقان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فرقان کا لفظ فرق کا مبالغہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے بہت زیادہ فرق کرنا۔ فرق دوچیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنے کا نام ہے۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں، فرق کے معنیٰ دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا بتایا گیا ہے: الفرق: الفصل بین الشیئین (10/301)۔
تقویٰ سے آدمی کے اندر فرقان پیدا ہوتا ہے۔ تقویٰ کسی قسم کی متقیانہ وضع کا نام نہیں ہے، تقویٰ دراصل اللہ کے ساتھ شدتِ خوف کا نام ہے۔ جس آدمی کے اندر شدتِ خوف پیدا ہو جائے، وہ ایک کٹ ٹو سائز انسان (man cut to size) بن جائے گا۔ ایسے آدمی کے اندر ہر قسم کے متعصبانہ فکر (biased thinking) کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ کامل طورپر خالی الذہن ہو کر چیزوں کو ویسا ہی دیکھ سکے جیسا کہ واقعۃً وہ ہیں۔ جس آدمی کے اندر اس قسم کا خالص فکر پیدا ہوجائے، اس کو لازمی طورپر فرقان حاصل ہوجائے گا، وہ چیزوں کو بے آمیز شکل میں دیکھے گا، وہ جذبات سے ہٹ کر رائے قا ئم کرے گا۔ تقویٰ آدمی کی کنڈیشننگ کو توڑ دیتا ہے۔ آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ چیزوں کو ربانی شاکلہ سے دیکھ سکے، وہ کامل طورپر حقیقت پسندانہ انداز میں رائے قائم کرسکے، وہ رد عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر پاک ہوجائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کے اندر فرقان کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بلا شبہہ یہ سب سے بڑی نعمت ہے کہ کسی آدمی کوفرقان کی صلاحیت مل جائے— تقویٰ سے کسی آدمی کو فرقان ملتاہے، اور فرقان سے آدمی کو وہ نادر صفت حاصل ہوتی ہے جس کو اعلیٰ بصیرت کہاگیا ہے۔