نچلے طبقے میں دعوتی کام
کچھ لوگ دعوت کاکام کررہے ہیں۔ لیکن وہ اپنا دعوتی کام نچلے طبقے کے لوگوں میں انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی دعوت کا صحیح اسلوب ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں وہ قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ وہ آیت یہ ہے: فقال الملأ الذین کفروا من قومہ مانراک إلاّ بشراً مثلنا، وما نراک اتبعک إلا الذین ہم أراذلنا بادی الرأی (ہود: 27) اِس آیت میں ’أراذلنا‘ کا لفظ پیغمبر کی زبان سے نہیں ہے، یعنی پیغمبر نے یہ نہیں کہا کہ اراذل (نچلے طبقے کے لوگ) میرے مخاطبین ہیں۔ یہ لفظ دراصل پیغمبر کے مخالفین نے بطور استہزا استعمال کیا ہے۔ خود اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ پیغمبر نے اصلاً خواص کو یعنی قوم کے سربرآوردہ افراد کو خطاب کیا تھا۔ اِسی کے ساتھ فطری طورپر عوام بھی اس کے مخاطب بن گئے۔
اِس سلسلے میں دوسرا حوالہ حدیث سے دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب ملنے کے بعد ہرقل اور ابوسفیان کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا، اس کا ایک حصہ یہ تھا: قال: فأشراف الناس یتبعونہ أم ضعفائہم۔ قلتُ: بل ضعفائہم(صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی) اِس روایت میں ’ضعفاء‘ کا لفظ متبعین کو بتانے کے لیے آیا ہے، نہ کہ مخاطبین کو بتانے کے لیے۔ اِس لیے یہ دلیل بھی مذکورہ دعوے کا ثبوت نہیں بن سکتی۔ اِس دعوے کا علمی تجزیہ اس کو سرتاسر غلط ثابت کرتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کا خطاب اصلاً قوم کے خواص سے ہوتا ہے۔ ہر پیغمبر کے براہِ راست مخاطب قوم کے خواص تھے، لیکن خواص کے طبقے کے اکثر لوگ اپنے دنیوی مفادات کی بنا پر پیغمبر کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ قرآن کے بیان کے مطابق، پیغمبر کی دعوت کی صداقت کو اُن کا دل مان لیتا ہے، لیکن ظلم اور علو کی بنا پر وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں (النمل:14)۔پیغمبر اسلام ﷺنے ہرقل (شاہِ روم) کو دعوتی مکتوب بھیجا، تو اس میں یہ درج تھا کہ اگر تم نے میری دعوت قبول نہ کی، تو تمھاری رعایا کا گناہ تمھارے اوپر ہوگا (فإن تولیتَ فإنّ علیک إثم الأریسییّن)۔ اِس میں یہی دعوتی اصول مضمر تھا۔