متواضع آغاز، پُر فخر آغاز
حدیث میں امتِ محمدی کے بارے میں بطور پیشین گوئی آیا ہے کہ: لتتبعن سنن من کان قبلکم، شبراً بشبر، وذراعاً بذراعٍ، حتی ولو دخلوا جحر ضبّ لدخلتموہ (مسنداحمد، جلد 3، صفحہ 84) یعنی تم لوگ ضرور پچھلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلو گے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم وہاں بھی داخل ہوجاؤ گے۔
اِس اتباع میں عام طوپر چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیا جاتا ہے۔ مثلاً تعویذ، گنڈا وغیرہ۔ لیکن اس معاملے میں زیادہ بڑا اتباع وہ ہے جو قومی پالیسی کے سلسلے میں پیش آئے۔
بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہود پر جب زوال آیا اور ان کا اقتدار باقی نہیں رہا تو اُس وقت انھوں نے جو سیاست اختیار کی، اس پر تنقید کرتے ہوئے ان کے پیغمبر یرمیاہ نے اُن سے کہا کہ— عاجزی کرو اور نیچے بیٹھو، کیوں کہ تمھاری بزرگی کا تاج تمھارے سر پر سے اتار لیا گیا ہے:
Humble yourselves. The crown of your glory has been taken away from you (Jeremiah 13:18)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب سیاسی اقتدار باقی نہ رہے تو قوم کو اپنی تعمیر ِ نو کا آغاز، متواضع آغاز (humble beginning) سے کرنا چاہئے، نہ کہ پُر فخر آغاز (prideful beginning)سے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے عین اِسی ممنوعہ روش کو دہرایا ہے۔ موجودہ زمانے میں جب مغل ایمپائر اور عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں نے اپنے عمل کا آغاز جہاد اور حکومت اور خلافت کی تحریکوں سے کیا، حالاں کہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان پیچھے جائیں اور ابتدائی مرحلے سے اپنے عمل کا آغاز کریں۔
نقطۂ آغاز کے تعین میں اِسی غلطی کا یہ انجام ہوا ہے کہ بے شمار قربانیوں کے باوجود ان کی کوششیں یکسر رائیگاں ہو کر رہ گئیں ہیں۔