ایک آیت
قرآن میں ہے کہ اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں :وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (5:44)۔
ان الفاظ سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’ما انزل اللہ‘‘کے مطابق فیصلہ نہ کرنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سی حدیثیں ہیں جن میں بعض اعمال پر کفر کی خبر دی گئی ہے۔ مثلاًرسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْر(صحیح البخاری، حدیث نمبر 47)۔ یعنی، مسلم کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔
اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کو لے کر کچھ اسلام پسند حضرات ان مسلمانوں کو کا فرقرار دیتے ہیں جو ان کے نزدیک ’’ما انزل اللہ ‘‘ پر فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔ اس نظریہ کے تحت وہ بہت سے مسلم حکمرانوں کو مرتد اور کافر بتاتے ہیں اور ان کے قتل کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اس قسم کا نظریہ بدترین گمراہی ہے اور اس نے عالم اسلام میں خار جیت جیسے ایک فتنہ کو دوبارہ شدید تر صورت میں زندہ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں نہ صرف مسلمان مسلمان کو قتل کر رہے ہیں،بلکہ خود اسلام کی تصویر ایک ایسے مذہب کی ہوگئی ہے جو تشدد اور خوںریزی کی تعلیم دیتا ہو۔
اس قسم کی آیات اور احادیث کی صحیح تفسیر وہ ہے، جو حبر الامت اور امام التفسیر عبد اللہ بن عباس نے کی ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے مراد وہ کفر نہیں ہے جس سے آدمی خارج از اسلام قرار پاتا ہے۔ بلکہ اس سے مراد : كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ(سنن ترمذی، حدیث نمبر2635) ہے۔ یعنی کفر سے کم تر درجہ کا ایک کفر۔
قرآن وحدیث میں جہاں اس قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ فقہی یا قانونی مفہوم میں نہیں ہیں۔ وہ ایک اسلوب کلام ہے۔ وہ دراصل زجر میں مبالغہ ہے ۔ یہ شدت کلام کی ایک مثال ہے۔ اور ناصحانہ کلام میں ہمیشہ اس قسم کا انداز اختیار کیا جاتا ہے، کبھی ایک قسم کے الفاظ میں اور کبھی دوسرے قسم کے الفاظ میں ۔ یہ قانونی زبان اور ناصحانہ زبان کا فرق ہے، نہ کہ فقہی معنوں میں مسلم اور کافر کا فرق تھے۔
نصیحت اور تنبیہ کبھی سادہ الفاظ میں کی جاتی ہے اور کبھی شدید الفاظ میں ۔ مذکورہ مثالیں اسی نوعیت کی شدید انداز کی مثالیں ہیں۔(الرسالہ، ستمبر 1996)
