کفر کا تحقق
کسی شخص کے بارے میں کب یہ متحقق (establish) ہوگا کہ وہ منکر یا انکار کرنے والا بن چکا ہے ۔ اس سوال کا جواب خود قرآن میں موجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے قرآن کے نزول کا آغاز 610ء میں مکہ میں ہوا۔ پیغمبر اسلام ﷺ قرآن کے ذریعہ مکہ کے لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچاتے رہے ۔ اس دعوتی مہم میں آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اپنے مخاطبین کو کافر کہہ کر خطاب کریں۔ اس دوران میں جو آیتیں اتریں ان سب میں انسان جیسے الفاظ تھے۔ آپ نے انہیں اپنی قوم کا حصہ قرار دیتے ہوئے اپنا پیغام پہنچایا۔
دعوت کی یہ مہم آپ نے اس طرح چلائی کہ آپ گہرے طور پر ان کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ نے ان کی ایذاؤں پر یک طرفہ صبر کیا۔ آپ نے ان سے کسی بھی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ آپ نے ان سے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے آپ کے اور ان کے در میان مادی نوعیت کا کوئی نزاع قائم ہو جائے ۔ آپ یک طرفہ طور پر ہمیشہ ان کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ کو ان کی طرف سے طرح طرح کی مصیبتیں پہنچیں مگر آپ ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتے رہے۔
دعوت کی یہ صبر آزما جد و جہد تیرہ سال تک چلتی رہی۔ تیرہ سال کے بعد بھی پیغمبر اسلامﷺنے اپنی زبان سے ان کے لیے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ آخر میں اللہ تعالی کی طرف سے یہ آیت اتری کہ: قُل يَٰٓأَ يُّهَا ٱلكَٰفِرُونَ ( تم کہہ دو کہ اے انکار کرنے والو)۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سال کی جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ مخاطبین کا انکار ثابت ہو جائے اور ان کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اے انکار کرنے والو ۔ اس قسم کے دعوتی کورس سے پہلے کسی کو منکر یا کافر قرار دینا جائز نہیں۔ اب جب کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سالہ جدو جہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ کسی کو کافر یا منکر قرار دیا جاسکے تو عام لوگوں کے لیے تو ایک سو تیرہ سال کی مدت بھی اس کام کے لیے نا کافی ہوگی ۔
