ٹیلی ویژن کا استعمال

نئی دہلی کے اردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے شمارہ اگست 2004ء میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اس رپورٹ میں ٹی وی کے بارے میں دو مختلف فتووں کا ذکر ہے۔ ایک فتوے میں کہا گیا ہے کہ تبلیغ و دعوت کے لیے ٹی وی کا استعمال جائز ہے۔ دوسرے فتوے میں اس کے بر عکس یہ کہا گیا ہے کہ ٹی وی تفریح کا ذریعہ ہے جس پر فحش پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ دینی پروگرام کے لیے اس کا استعمال نا جائز ہے (صفحہ 1)۔

اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانا اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا ایک ایسا کام ہے جو اہل اسلام پر فرض ہے ۔ اس کو ہر دور اور ہر حال میں انجام دینا ہے۔ یہ واضح  بات ہے کہ یہ کام اسی جگہ کیا جائے گا جہاں لوگ موجود ہوں یا اسی ذریعہ سے کیا جائے گا جو لوگوں تک پہنچنے والا ہو ۔ کسی الگ تھلگ جزیرہ میں انفرادی طور پر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں یہ شرط لگانا کہ صرف اسی مقام پر یا اسی ذریعہ سے یہ کام کیا جائے گا جہاں کوئی بُرائی نہ ہو تو اس طرح سرے سے یہ کام ہی انجام نہ پائے گا کیوں کہ دوسرے لوگ کبھی ہماری شرطوں پر ہم کو نہیں مل سکتے ۔

مثال کے طور پر پیغمبر اسلام ﷺ کو مکہ میں 610 ء میں پیغمبری ملی ۔ اس وقت وہاں یہ حال تھا کہ کعبہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ گویا کہ کعبہ کو عملاً بت خانہ بنا دیا گیا تھا۔ دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ اس وقت کے مکہ میں کعبہ ہی لوگوں کے لیے مقام اجتماع بنا ہوا تھا ۔ مکہ کے لوگ روزانہ کعبہ کے صحن میں جمع ہوتے تھے۔ چنانچہ مکہ والوں تک دین توحید کا پیغام پہنچانے کے لیے جو قابل حصول مقام تھا وہ یہی کعبہ تھا۔ جہاں لوگ اپنے بتوں کی نسبت سے اکٹھا ہوتے تھے۔ کسی اور جگہ ان لوگوں کو پانا ممکن ہی نہ تھا۔

 پیغمبر اسلام ﷺ نے اس معاملہ میں ایک حکمت اختیار کی ۔ آپ نے بت  کے معاملہ کو اور دعوت کے معاملہ کو ایک دوسرے سے الگ کر کے لیا۔ آپ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ جو لوگ وہاں اکٹھا ہوتے ہیں وہ بتوں کی نسبت سے اکٹھا ہوتے ہیں۔ آپ نے اس پہلو کو نظر انداز کر کے اس وقت کعبہ کو صرف مقام اجتماع کے طور پر لیا اور وہاں جا کر وہاں کے موجود لوگوں کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور توحید کا پیغام دینے لگے۔ اس حکمت نبوی کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ— مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو۔

یہی حکمت ہمیں ٹی وی کے معاملہ میں اختیار کرنا چاہیے ۔ یعنی دوسرے غیر مطلوب پروگرام جوٹی وی میں آتے رہتے ہیں، ان کو نظر انداز کر کے اس کے ذریعہ اپنا دینی پروگرام پیش کرنا۔ کیوں کہ ٹی وی کے عمومی رواج کی بنا پر یہ صورت حال ہے کہ ہم کو زیادہ سامعین ٹی وی ہی کے ذریعہ مل سکتے ہیں۔ کسی اور ذریعہ سے ہمیں زیادہ سامعین نہیں ملیں گے۔

 تاہم اس کا ایک اور پہلو ہے۔ اس کا تعلق ان پروگراموں سے ہے جو آج کل اسلامی پروگرام کے نام پر ٹی وی میں دکھائے جاتے ہیں ۔ یہ پروگرام عملاً زیادہ مفید نہیں ۔ ٹی وی کے دوسرے پروگراموں کی طرح ان اسلامی پروگراموں کو بھی تفریح کے روپ میں ڈھال دیا گیا ہے۔ یہ پروگرام بھی اسلام کے نام پر تفریحی پروگرام ہوتے ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ زیادہ تر اسلامی تفریح ہوتے ہیں، نہ کہ حقیقی معنوں میں اسلامی پروگرام ۔

جو لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ دوسرے مذہب کے لوگ بھی اپنے مذہب کی اشاعت کے لیے ٹی وی کو استعمال کرتے ہیں ۔ میری معلومات کے مطابق اس اعتبار سے سب سے اچھی مثال مسیحی پروگرام کی ہے۔ اردو اور دوسری زبانوں میں روزانہ مسیحی پروگرام آتے رہتے ہیں۔ یہ پروگرام فنی اعتبار سے ممتاز طور پر بہتر ہوتے ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے ہر مسلم ملک میں اسلامی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ مگر میری معلومات کے مطابق لوگ اس کو بہت کم دیکھتے ہیں۔ غالبا ًاس کا سبب ان پروگراموں کا غیر معیاری ہونا ہے۔ مجھے ایک سے زیادہ بار اس کا تجربہ ہوا ہے کہ کسی مسلم ملک میں میرا جانا ہوا۔ وہاں میں نے تحقیق کی کہ وہاں کے ٹی وی پر جو اسلامی پروگرام آتے ہیں، اس کو لوگ کتنا زیادہ دیکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بہت کم لوگ ٹی وی کے اس اسلامی پروگرام کو دیکھتے ہیں ۔ اکثر مقام پر یہ حال ہے کہ جب ٹی وی پر اسلامی پروگرام آتا ہے تو گھر والے یہ کہہ کر اس کو بند کر دیتے ہیں کہ — اس کو بند کرو یہ تو سرکاری پروگرام ہے۔

 برصغیر ہند کے تقریباً تمام مسلمان اقبال کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے ہیں ۔ مگر عجیب بات ہے کہ اقبال کا کلام ان لوگوں کے لیے صرف گنگنانے کا نغمہ ثابت ہوا ہے، نہ کہ زندگی کے لیے عملی رہنمائی لینے کا ذریعہ۔ مثلا ًاقبال نے کہا تھا:

آئینِ نو سے ڈرنا طرز ِکہن پر اَڑنا            منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

مگر مسلمانوں، خاص طور پر مذہبی طبقہ کا یہ حال ہے کہ وہ ہر نئی چیز پر بھڑکتے ہیں ۔ وہ ہر نئی چیز پر منفی رد عمل ظاہر کرتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال ٹی وی ہے ۔ مذہبی طبقہ کے درمیان ٹی وی کو اتنا ہی بُر اسمجھا جاتا ہے جتنا کہ شیطان کو۔

اس معاملہ میں صحیح مسلک یہ ہے کہ ٹی وی اور ٹی وی کے غلط استعمال کے درمیان فرق کیا جائے۔ ٹی وی تو ایک خدائی قدرت کا ظہور ہے۔ وہ خدا کے بنائے ہوئے فطری قانون کا استعمال ہے۔ ٹی وی کا طریقہ امکانی طور پر خود خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں چھپا ہوا تھا۔ انسان کا حصہ اس میں صرف اتنا ہے کہ اس نے اس کو دریافت کر کے اسے استعمال کیا ۔ ٹی وی کی ٹیکنالوجی اپنی حقیقت کے اعتبار سے خدا کا عطیہ ہے، نہ کہ کسی دشمنِ اسلام کا۔

یہ بات بجائے خود صحیح ہے کہ ٹی وی پر بہت سے غیر اخلاقی پروگرام آتے ہیں ۔ مگر یہ ٹی وی کا غلط استعمال ہے۔ اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ غلط استعمال ہر چیز کا ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ثابت شدہ طور پر مقدس چیزوں کا بھی ۔ غلط استعمال کی بنا پر کسی چیز کو چھوڑ نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کے استعمال کو درست کیا جائے گا۔

اس معاملہ میں مذہبی طبقہ کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ منفی رد عمل ظاہر کر کے الگ ہو جائے ۔ اس معاملہ میں مذہبی طبقہ کی ایک مثبت ذمہ داری ہے۔ اور یہ کہ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ ٹی وی کے طریقہ کوفنی طور پر سمجھیں۔ وہ اس کے استعمال کی تفصیلات کو جانیں۔ وہ یہ دریافت کریں کہ ٹی وی کو کس طرح اصلاحی کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پھر مذہبی طبقہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ضروری تیاری کے بعد ٹی وی کے لیے اعلیٰ درجہ کے اسلامی پروگرام تیار کرے ،ایسا پروگرام جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ جس کو دیکھنے کے لیے لوگ راغب ہوں ۔ جو آج کے انسان کے ذہن کو ایڈرس کرے۔

 اسلام کا طریقہ منفی رد عمل کا طریقہ نہیں ہے بلکہ منفی حالات میں مثبت پہلو تلاش کرنے کا طریقہ ہے۔ اس کی ایک مثال قدیم کعبہ کی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے ۔ یہاں ہر عورت اور مرد کو آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ ناممکن ہے کہ موجودہ دنیا میں سب کچھ ٹھیک رہے۔ کوئی نا خوشگوار بات پیش نہ آئے ۔ اس دنیا میں ہمیشہ ناموافق حالات موجود رہیں گے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ناموافق حالات کے درمیان موافق پہلو کو دریافت کریں اور اس کو اپنے حق میں استعمال کریں۔

اس اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (94:6)۔یعنی جہاں مسائل ہیں، وہیں مواقع بھی موجود ہیں۔ تم مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو۔ یہ ایک آفاقی حکمت ہے۔ اس حکمت کا تعلق ٹی وی سے بھی ہے اور دوسری تمام چیزوں سے بھی (الرسالہ، دسمبر 2004)۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom