فتویٰ کا غلط استعمال

ریاست جموں اور کشمیر میں اکثر فوج اور تشدد پسندوں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر تشدد پسند لوگ عموماً ایسا کرتے ہیں کہ وہ مذہبی عمارتوں میں داخل ہو کر وہاں پناہ لے لیتے ہیں اور وہاں سے اپنی کاروائیاں کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دونوں طرف سے گولیاں چلتی ہیں اور فطری طور پر مذہبی عمارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ صورت حال وادی کے مدرسے اور مسجد اور درگاہ وغیرہ میں عرصے سے جاری ہے۔

ہندوستانی فوج نے اس صورت حال کے پیش نظر عرصے سے کشمیر میں’’سد بھاؤنا آپریشن‘‘ کے نام سے ایک مہم چلا رکھی ہے۔ اُن کے پاس گورنمنٹ آف انڈیا کا فنڈ ہوتا ہے ۔ وہ لوگ اس کی مدد سے مسجد اور مدرسہ اور خانقاہ کی عمارتوں میں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتے ہیں اور اُس کو پھر سے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کام کشمیر میں کئی سالوں سے جاری ہے۔

جون 2007 میں سری نگر کے علاقہ راجوری کدل میں علما کی ایک کانفرنس ہوئی۔ اس میں کشمیری مسلمانوں کے مذہبی رہ نما 350 کی تعداد میں شریک ہوئے۔ یہاں انہوں نے فتویٰ یا بیان کی صورت متفقہ طور پر ایک ریزولوشن پاس کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مسجد کی مرمت غیرمسلموں کے ہاتھ سے کرنا اسلام میں حرام ہے۔ اس لیے’’سد بھاؤ نا آپریشن‘‘کا یہ کام دین میں مداخلت کی حیثیت رکھتا ہے، گورنمنٹ آف انڈیا کو چاہیے کہ وہ اس کام کو فوراً بند کرے۔

یہ فتویٰ یا بیان سراسر بے بنیاد ہے۔ یہ اسلام کو اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے، اُس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی تاریخ میں، اور خود ہندستان میں ایسا برابر ہوتا رہا ہے کہ غیر مسلم لوگوں کے تعاون سے مسجدیں بنائی گئی ہیں یا اُن کی مرمت کا کام ہوا ہے مگر علما نے کبھی اس کام کو غلط نہیں بتایا۔

اس معاملے میں سب سے بڑی مثال خود کعبہ کی ہے جو گویا کہ تمام مسجدوں کا نمائندہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے کعبہ یا بیت اللہ کو مکہ میں چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے ربع اوّل میں ہوئی۔ اُس وقت وہاں کعبہ کی جو سنگی عمارت تھی وہ ابراہیمی تعمیر کے مطابق تھی۔

 تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے کعبہ کی ابراہیمی عمارت بارش کی وجہ سے ڈھ گئی تھی۔ اُس وقت مکہ کے لوگوں نے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی۔ مکہ کے یہ لوگ مشرک اور بت پرست تھے ۔ گویا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت مکہ میں خانہ کعبہ کی جو عمارت تھی وہ مشرکین کے ہاتھوں بنائی گئی تھی، مگر رسول اللہ ﷺنے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا، یہاں تک کہ ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ فتح ہو گیا اور رسول اللہ ﷺ کو وہاں کا اختیار حاصل ہو گیا تب بھی آپ نے ایسا نہیں کیا کہ آپ مشرکین کے بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھائیں اور دوبارہ اس کو اہل ایمان کے ذریعے تعمیر کرائیں۔

 تاریخ مزید بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے وقت کعبہ کے اوپر جو غلاف تھا وہ مشرکین کا بنایا ہوا تھا۔ اُس کو بنانے میں بت پرستوں کا مال استعمال ہوا تھا، مگر رسول اللہ ﷺ نے مکہ پر فتح حاصل کرنے کے باوجود اس قدیم غلاف کو نہیں بدلا۔ بعد کو ایسا ہوا کہ ایک عورت کی غلطی سے یہ غلاف جل گیا۔ اس کے بعد آپ نے نیا غلاف تیار کر کے اس کے اوپر ڈالا ۔ گویا کہ غلاف کی تبدیلی صرف اُس وقت کی گئی جب کہ یہ تبدیلی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی تھی۔

تاریخ میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو واضح طور پر یہ بتاتے ہیں کہ مسجد یا مدرسے میں غیر مسلم کا تعاون لینا عین جائز ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کا کوئی حرج نہیں۔ ایسے فعل کو دین میں مداخلت کہنا سراسر غلط ہے، بلکہ یہ فتنہ انگیزی ہے۔ کیوں کہ اس سے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان تعلقات غیر ضروری طور پر بگڑ سکتے ہیں۔

کسی مسجد یا مدرسے کی بلڈنگ بذات خود مسجد یا مدرسہ نہیں ہے وہ صرف مسجد یا مدرسے کا ظاہری ڈھانچہ ہے۔ مسجد اصلاً عبادت کا مقام ہے۔ اسی طرح مدرسہ اصلاً تعلیم کا مقام ہے۔ ظاہری ڈھانچے کے بارے میں اس قسم کے فتوے یا بیانات اسلام کی روح کو سخت نقصان پہنچانے والے ہیں۔ اس سے غیر ضروری طور پر ساری اہمیت ڈھانچے کی بن جاتی ہے۔ حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ عبادت اور تعلیم کو اہمیت دی جائے۔ ساراز ور اور تاکید بہتر عبادت اور بہتر تعلیم پر ہو۔ ڈھانچے کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرنا لوگوں کے ذہن کو بگاڑنا ہے۔ اور ذہن کو بگاڑنا اسلام میں ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس قسم کا منفی ذہن مسلمانوں کے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اس کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں دعوت کا مزاج کھو دیا۔ دوسری اقوام ان کے لیے مدعو نہ رہیں، بلکہ وہ ان کی حریف اور رقیب بن گئیں ۔ اس منفی مزاج کا نتیجہ ہے جو کہ مذکورہ قسم کی نا محمود چیزوں کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

مسلمان کا صحیح مسلم مزاج وہ ہے جس کو دعوتی مزاج کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا جو موجودہ مزاج ہے، وہ قومی مزاج ہے، نہ کہ دعوتی مزاج ۔ دعوت دوسرے انسانوں تک خدا کا ابدی پیغام رحمت پہنچانے کا نام ہے۔ اس قسم کا مشن اپنے آپ داعی کو دوسرے انسانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا دیتا ہے۔ یہ مشن آدمی کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یہ مشن آدمی کو دوسرے انسانوں کے حق میں نرم اور شفیق بنا دیتا ہے۔ قومی مزاج کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔

 قومی مزاج آدمی کے اندر دوسروں کے خلاف رقیبانہ مزاج پیدا کر دیتا ہے۔ قومی مزاج ہمیشہ مادی مفادات کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اس قسم کے مزاج میں دوسروں کے لیے شکایات ہوتی ہیں، نہ کہ ہمدردی اور خیر خواہی ۔ آج کل مسلمانوں کا عام طور پر یہی قومی مزاج بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں منفی نفسيات میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یہ منفی مزاج اُن کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے (الرسالہ ، اکتوبر 2007)۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom