کلچرل ہیرٹیج کا پریز رویشن

کلچرل ہیرٹیج (cultural heritage) اسی چیز کا دوسرا نام ہے جس کو عام طور پر ہسٹاریکل مانیومنٹ (historical monument) کہا جاتا ہے ۔ مقامی ریفرنس کے اعتبار سے وہ کلچرل ہیرٹیج ہے اور یو نیورسل ریفرنس کے اعتبار سے وہ ہسٹاریکل مانیومنٹ ۔ کلچرل ہیرٹیج  یا ہسٹاریکل مانیومنٹ کی اہمیت اسلامی ٹریڈیشن میں بھی وہی ہے جو دوسرے ٹریڈیشن یاڈسپلن میں مانی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کلچرل ہیرٹیج کا پریزرویشن (preservation) انسانیت کے ان عمومی معاملات میں سے ہے جس میں سیکولر پوائنٹ آف ویو اور اسلامک پوائنٹ آف ویو کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ اسلام کے مطابق بھی وہ بلا شبہ اس قابل ہے کہ اس کو محفوظ (preserve)کیا جائے ۔ ماضی کے ریکارڈ کو اگر محفوظ نہ رکھا جائے تو مستقبل کی نسلوں کے لیے علم کا ایک معتبر ذریعہ ضائع ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسا تاریخی نقصان ہے جس کی تلافی کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔

 اسلام فطرت کا دین ہے۔ ہر وہ چیز جو فطرت اور ریزن کے مطابق قابل لحاظ ہو وہ یقیناً اسلام میں بھی قابل لحاظ قرار پائے گی۔ کسی چیز کا فطری تقاضا ہونا بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اسلام کا تقاضا بھی ہے۔

اسلامی شریعت میں ایک اہم اور مسلّمہ اصول یہ ہے کہ: الْأَصْلُ ‌فِي ‌الْأَشْيَاءِ ‌الْإِبَاحَةُ (المبسوط للسرخسی،جلد 24، صفحہ 77) ۔یعنی، چیزوں میں اصل ان کا مباح ہونا ہے۔ اس شرعی اصول کی روشنی میں دیکھیے تو کلچرل ہرٹیج کو پریز رو کرنا یقینی طور پر اسلام میں ایک جائز کام ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور سنت میں کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ کلچرل ہیرٹیج کو پریز رو نہ کرو۔ اور جب قرآن اور سنت میں اس قسم کی کوئی ممانعت موجود نہیں تو کلچرل ہیرٹیج کو پریز رو کرنا اپنے آپ جائز قرار پائے گا۔ اس عمل کو جائز ٹھہرانے کے لیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔تاہم قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کلچرل ہیر یٹج کی اہمیت کے بارے میں ایسے حوالے بھی موجود ہیں جو اس کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لیے براہ راست ثبوت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں اس سلسلے میں اسلامی ماخذ سے چند متعلق حوالے درج کیے جاتے ہیں۔

 ا۔ قرآن میں اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ائْتُونِي  بِكِتابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ(46:4)۔ یعنی، تم میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لے آؤ یا کوئی علم جو چلا آتا ہو۔ قرآن کی اس آیت میں اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ (کوئی علم جو چلا آتا ہو)کا مطلبremnant of knowledge  ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو آج کل کی زبان میں آرکیالوجیکل ریکارڈ یا ہسٹاریکل ریکارڈ کہا جاتا ہے۔

 اس قسم کا ریکارڈ ماضی کے واقعات کو جاننے کے لیے نہایت اہم علمی ذریعہ ہے۔ ایسی حالت میں ماضی کے اس ریکارڈ کو محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے علمی نقطۂ نظر سے بھی اور اسلامی نقطۂ نظر سے بھی۔

2۔کلچرل ریکارڈ یا ہسٹا ریکل کو محفوظ رکھنے کی ایک عملی مثال قرآن میں وہ ہے جو فرعون کے تذکرہ کے ذیل میں آئی ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ موسیٰ کا ہم عصر فرعون جب غرق ہو کر مرا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ — فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً (10:92)۔ یعنی، آج ہم تمہارے بدن کو محفوظ رکھیں گے تا کہ وہ تمہارے بعد والوں کے لیے نشانی ہو۔

جیسا کہ معلوم ہے مذکورہ فرعون کا جسم مصری رواج کے مطابق، مرنے کے بعد مومیائی کر کے ایک اہرام میں رکھ دیا گیا تھا۔ یہ بلا شبہ قدیم مصری کلچر کا ایک حصہ تھا۔ مصری کلچر کا یہ حصہ خود خدا کے منصوبے کے تحت محفوظ رہا یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر میں اس کو مصر کے ایک اہرام سے نکالا گیا ۔ اور کاربن ڈیٹنگ کے جدید طریقہ کو اپلائی کر کے یہ معلوم ہوا کہ وہی فرعون ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں غرق ہوا تھا۔ فرعون کا یہ محفوظ جسم قاہرہ کےمیوزیم میں قرآن کی مذکورہ آیت کی ایک شہادت کے طور پر آج بھی رکھا ہوا ہے۔

 جیسا کہ معلوم ہے فرعون ایک مشرک بادشاہ تھا۔ اس کے باوجود اللہ کی مرضی یہ ہوئی کہ اس کے جسم کو محفوظ رکھا جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کلچرل ہسٹری کی نہ صرف عام چیزیں بلکہ مشرک بادشاہ کا جسم بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہنا درست ہو گا کہ بامیان میں واقع بودھ کے دو ہزار سالہ مجسموں کو محفوظ رکھنا اسلام میں بھی اُسی طرح مطلوب ہے جس طرح دوسرے ٹریڈیشن یا ڈسپلن میں مطلوب ہے یا ہو سکتا ہے۔

3۔ قرآن میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ذیل میں بتایا گیا ہے کہ ان کے یہاں ایک وراثتی تابوت ( صندوق ) موجود تھا جو نسل در نسل ان کے یہاں ذریعہ سکون کے طور پر محفوظ رہا۔ اس تابوت میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے تبرکات محفوظ کیے گئے تھے ۔ گویا یہ عین وہی چیز تھی جس کو موجودہ زمانے میں کلچرل ہیر یٹج کہا جاتا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وراثتی تابوت کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ ایک موقع پر اس کو فرشتے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے گئے ۔ (2:248)

میں سمجھتا ہوں کہ کلچرل ہیر یٹج کو محفوظ کرنے کی یہ ایک براہ راست مثال قرآن میں موجود ہے ۔ اس سے کلچرل ہیر یٹج کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ایسی چیز کونسل در نسل محفوظ رکھنا شریعت الٰہی کے خلاف نہیں۔

4۔قرآن میں مومن کی ایک صفت’’ السائح‘‘ بتائی گئی ہے (9:112)۔ یعنی سیاحت کر کے زمین کے مختلف مقامات پر جانا اور پچھلی قوموں کے چھوڑے ہوئے آثار و مساکن کو دیکھ کر ان سے نصیحت لینا (28:58)۔ قرآن میں تکرار کے ساتھیہ آیت آئی ہے: قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (6:11)۔یعنی، کہو، زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔

 اس کے مطابق ،اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ ماضی کے تاریخی آثار کو اس کی ابتدائی شکل میں محفوظ رکھا جائے تا کہ دیکھنے والے لوگ ان سے سبق لے سکیں۔ تاریخی آثار کو محفوظ نہ رکھنے کی صورت میں اسلام کا یہ سیاحتی مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

 5۔ کلچر ہمیشہ ایک طبقہ یا ایک کمیونٹی کی وراثت ہوتا ہے۔ ہر کمیونٹی کو یہ مطلق رائٹ حاصل ہے کہ وہ اپنے کلچر کا تحفظ کرے۔ کلچر کے معاملے میں نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ اسلام کے موافق ہے یا اس کے خلاف۔ جب بھی کوئی کمیونٹی کسی کلچر کو اپنا کلچر سمجھے اوراس کو محفوظ رکھنا چاہے تو یہ حق اس کو دیا جائے گا۔ یہ حق جس طرح سیکولرزم میں تسلیم کیا گیا ہے اسی طرح وہ اسلام میں بھی تسلیم شدہ ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلام کے خلیفہ ثانی عمر فاروق ؄ کی خلافت کے زمانے میں یروشلم (ایلیا) فتح ہوا تو خود عمر فاروق ؄  مدینہ سے سفر کر کے یروشلم گئے۔ اس وقت اسلامی خلافت اور مسیحی فرقہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا گیا کہ مسیحی چرچوں میں جو چیزیں ہیں وہ محفوظ رہیں گی۔ مثلاً مریم اور مسیح کے بت، وہ مقدس لکڑی جس پر مسیحی عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح کو سولی دی گئی، وغیرہ ۔

هٰذَا مَا أَعْطَى عَبْدُ اللهِ عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَهْلَ إِيلِيَاءَ مِنَ الْأَمَانِ، أَعْطَاهُمْ أَمَانًا لِأَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ، وَلِكَنَائِسِهِمْ وَصُلْبَانِهِمْ، وَسَقِيمِهَا وَبَرِيئِهَا وَسَائِرِ مِلَّتِهَا، أَنَّهُ لَا تُسْكَنُ كَنَائِسُهُمْ وَلَا تُهْدَمُ، وَلَا يُنْتَقَصُ مِنْهَا وَلَا مِنْ حَيْزِهَا، وَلَا مِنْ صَلِيبِهِمْ، وَلَا مِنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَلَا يُكْرَهُونَ عَلَى دِينِهِمْ، وَلَا يُضَارُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ(تاریخ الطبری ، جلد 3، صفحہ 609)۔

اس قسم کی چیزیں مسیحی کلچر کا حصہ تھیں مگر معاہدہ میں یہ لکھا گیا کہ مسیحی فرقہ کو یہ حق ہو گا کہ ان کے چرچ ڈھائے نہ جائیں اور ان کے کلچرل ہر یٹج کوکسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ وہ جس طرح چاہیں اپنے کلچر کی حفاظت کریں۔

خلیفہ ثانی کے اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ جس چیز کو وہ اپنے کلچر کا حصہ سمجھتی ہے اس کو وہ محفوظ رکھے خواہ وہ مسلم حکومت کے اندر ہو یا مسلم حکومت کے باہر ۔کسی حکومت کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی گروہ کے کلچر کے معاملے میں دخل دے۔ کلچر کے تحفظ کا معاملہ حکومتی مداخلت سے آزاد معاملہ ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی اہمیت کی چیزوں میں اسلام کا نارم (norm) بھی وہی ہوگا، جو دوسری قوموں کا متفقہ نارم ہو ۔ انٹرنیشنل نارم کے معاملے میں اسلام کا یہ اصول پیغمبر اسلام ﷺ کے بعض واقعات سے مستنبط ہوتا ہے۔

 مثلاً رسول اللہ ﷺ کے آخری زمانے میں یمن کے ایک شخص مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس نے دو آدمیوں پر مشتمل اپنا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ بھیجا اور یہ کہلوایا کہ آپ میری نبوت کو قبول کریں۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے ان دو آدمیوں سے پوچھا کہ مسیلمہ کے معاملے میں تمہاری اپنی رائے کیا ہے۔ دونوں نے کہا کہ ہم بھی اس کو اس دعویٰ کے مطابق نبی مانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ رواج نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں ضرور تم دونوں کو قتل کر دیتا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2761)۔

 پیغمبر اسلام ﷺ کے اس ارشاد سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز انٹرنیشنل طور پر تسلیم کر لی جائے تو اسلام میں بھی اس کو تسلیم کیا جائے گا۔ اس اصول کی روشنی میں کلچرل ہیرٹیج کو محفوظ کرنا اسلام میں بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ دوسری قوموں کے نزدیک اہم ہے۔ جدید دنیا میں کلچرل ہیر یٹج یا ہسٹاریکل مانیومنٹ کو نہایت اہمیت کے ساتھ محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسلام میں بھی بلا شبہ ایسا ہی کیا جائے گا۔ اس معاملے میں دوسروں سے الگ اسلام کا کوئی طریقہ نہیں۔

 پیغمبر اسلام ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے ۔ وہاں کھجور کے درخت نہیں ہوتے تھے۔ اس کے بعد آپ ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ یہاں کھجوروں کے باغ ہوا کرتے تھے۔ ایک دن آپ ٹاؤن سے باہر ایک باغ کے پاس سے گزرے۔ یہاں کچھ لوگ کھجور کے درخت پر چڑھ کر اپنے ہاتھوں سے ہینڈ پالی نیشن (hand pollination) کا کام کر رہے تھے۔ آپ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

 اگلے سال کھجور کی فصل کم آئی۔ آپ نے سبب پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ آپ نے پالینیشن ( تأبیرنخل) سے منع کر دیا تھا جب کہ اسی سے کھجور میں اچھی فصل آتی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ تم جو کرتے تھے اس کو کرو کیونکہ تم اپنی دنیا کے معاملےمیں زیادہ جانتے ہو— أَنْتُمْ ‌أَعْلَمُ ‌بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2362)۔

 پیغمبرﷺ کے اس قول سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے عقیدہ اور امورِ دنیا کا فرق۔اسلام کے مطابق زندگی کے وہ معاملات جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے امورِ دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ان کو عقیدہ کے تابع نہیں رکھا جائے گا، بلکہ ایسے موضوعات علمی ریسرچ کے تابع ہوں گے۔ ان میں وہی چیز درست قرار پائے گی جو علمی ریسرچ سے درست قرار پاتی ہو۔ ایگری کلچر اور ہارٹی کلچر سے لے کر انجینئرنگ اور ہسٹری کے شعبے تک سب اس میں شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کلچرل ہر یٹج یا ہسٹاریکل مانیومنٹ کے پریز رویشن کا معاملہ بھی انہیں چیزوں میں سے ہے جو علمی ریسرچ کے تابع ہیں، نہ کہ عقیدہ (faith) کے تابع ۔

خلاصہ یہ کہ اصولی ہدایات اور عملی نظائر دونوں اعتبار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کلچرل ہیر یٹج یا ہسٹاریکل مانیومنٹ کے پریزرویشن کے معاملے میں اسلام کی رائے بھی وہی ہے جو دوسرے ٹریڈیشن یا ڈسپلن کی ہے۔ بالفرض اگر کسی مسلم ملک میں کوئی مانیومنٹ ایسا ہو جس کو کسی بنا پر ملک کے اندر رکھنا مناسب نہ ہو تو ایسی حالت میں اس کو تباہ نہیں کیا جائے گا بلکہ خواہش مند قوموں اور ملکوں کو اسے ایکسپورٹ کر دیا جائے گا تا کہ وہ اس کو اپنے میوزیم میں محفوظ کر سکیں۔

افغانستان ( بامیان) میں 2001ءگوتم بدھ کے مجسموں کو جس طرح تو ڑا گیا وہ ہرگز اسلام نہ تھا، وہ غلو (extremism) تھا اور قرآن اور حدیث کے مطابق غلو اسلام میں نہیں۔ (الرسالہ، اپریل 2007)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom