یہ اختلاف

ہفتہ وار ’’انکشاف ‘‘ ( جھانسی 21 دسمبر 1983ء) میں ایک مختصر مضمون نظر سے گذرا:

یہ سنیوں کی مسجد ہے۔

یہ شیعوں کی مسجد ہے۔

یہ اہل حدیث کی مسجد ہے۔

یہ بریلویوں کی مسجد ہے۔

یہ دیو بندیوں کی مسجد ہے۔

یہ مسجد بساطیان ہے۔

یہ مسجد منصوریان ہے۔

اس مسجد میں سلام پڑھنا منع ہے۔

اس مسجد میں تبلیغی جماعت قیام نہیں کر سکتی۔

میں ایک نو مسلم ہوں ۔ قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہو کر میں نے اسلام قبول کیا ہے۔ اب کوئی مجھے بتائے کہ میں کس مسجد میں نماز ادا کروں۔

یہ ایک چھوٹی سی تصویر ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی حالت کیا ہے۔ مسلمان ہر طرف جھوٹے نعروں میں الجھے ہوئے ہیں اور خود ساختہ مسائل کی بنیاد پر انہوں نے خدا کے ایک دین کو بہت سے دینوں میں بانٹ رکھا ہے۔

 ایک شخص اپنے جسم کے کپڑے کو پھاڑ کر اس کے 72 ٹکڑے کر ڈالے تو لوگ اس کو پاگل کہیں گے۔ مگر جن لوگوں نے خدا کے دین کو متفرق کر کے اس کو 72کے ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے وہ پاگل ہی نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ ایسے لوگ دینداری کا انعام نہیں پاسکتے ۔ البتہ یہ اندیشہ ہے کہ ان کو خدا کے دین کو بگاڑنے والا قرار دے کر آخرت میں ان پر مقدمہ چلایا جائے۔

موجود زمانے میں مسلمانوں کا جو حال ہے، وہ اس آیت کا مصداق ہے جو قرآن میں یہودیوں کے بارے میں آئی تھی:  فَتَقَطَّعُوٓاْ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا  كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (23:53)۔ یعنی، انہوں نے دین کو اپنے درمیان ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔ ہر گروہ کے پاس جو ہے وہ اس پر خوش ہے۔ (الرسالہ، مئی 1984)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom