ایک انسانی کمزوری

عورت اور مرد دونوں میں یہ کمزوری بہت عام ہے کہ وہ مثبت تجربے کے وقت اعتراف کا کلمہ نہیں بولتے، لیکن اگر اُنھیں کوئی منفی تجربہ ہو تو وہ فوراً بے اعترافی کی بولی بولنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس کا جواب قرآن کی سورہ نمبر 89 سے معلوم ہوتا ہے۔ انسان کی اِس کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فأمّا الإنسان إذا ما ابتلاہ ربّہ فأکرمہ ونعّمہ فیقول ربّی أکرمن۔ وأمّا إذا ماابتلاہ فقدر علیہ رزقہ فیقول ربّی أہانن (الفجر: 15-16) یعنی انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتاہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ انسان کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔

اصل یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اپنے لیے استحقاق کا ایک درجہ مان لیتے ہیں۔ یہ درجہ ہمیشہ اپنے بارے میں برتر اندازہ(overestimation) پر قائم ہوتاہے۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب اُن کو دنیا کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا اِس لیے ہوا کہ میں اُس کا مستحق تھا، میرے ساتھ ایساہونا ہی چاہیے تھا۔

اِس کے برعکس، جب وہ ایک نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے مزاج کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک چیز جس کا میں مستحق تھا، وہ مجھ کو نہیں ملی۔ اِس طرح، دونوں حالتوں میں ان کا رویہ غلط ہوجاتا ہے۔ پانے کے موقع پر وہ بے اعترافی کا شکار ہوجاتے ہیں اور نہ پانے کے موقع پر وہ شکایت کرنے لگتے ہیں۔

صحیح یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی چیز ملے تو اُس کے اندر شکر کی نفسیات پیدا ہو اور اس کا اظہار وہ اعتراف کے کلمات کے ساتھ کرے، اور جب اس کو محرومی کا تجربہ ہو تو وہ صبر کرے اور مزید اضافے کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے۔ یہی اِس معاملے میں ایک خدا پرست انسان کا طریقہ ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom