نفسیاتی خود کشی سے بچئے
ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔انھوں نے کہا کہ میں مستقل طورپر منفی احساس میں مبتلا رہتا ہوں۔ اِس کا علاج کیا ہے۔ میں نے اِس کا متعین سبب پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ مثال کے طورپر میرے گھر میں ٹی وی چلتا ہے۔ میں ایک عالم آدمی ہوں اور ٹی وی کو برا سمجھتا ہوں۔ میں اُن کو منع کرتاہوں، لیکن گھر والے میری بات نہیں سنتے۔ ایسی حالت میں میں کیا کروں۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کی صورتِ حال میں اسلام کا فارمولا یہ ہے— اگر تم دوسروں کو نہ بچا سکو، تو تم اپنے آپ کو بچاؤ۔ اِسی کا نام صبر ہے۔ صبر کوئی بزدلی کی بات نہیں، صبر زندگی کی ایک عظیم حکمت ہے۔ اجتماعی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ اپنے مزاج کے خلاف ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر تم پُر امن طورپر دوسروں کی اصلاح کرسکو تو تم دوسروں کی اصلاح کرو۔ اور اگرایسا کرنا تمھارے لیے ممکن نہ ہو تو تم خوداپنے آپ کو اُس برائی سے بچاؤ۔ اِسی کا نام صبر ہے۔
منفی احساس میں مبتلا ہونا کوئی سادہ بات نہیں، یہ نفسیاتی خود کشی کے ہم معنیٰ ہے۔ ایسے موقع پر دوسروں کے خلاف تشدد کرنا جتنا برا ہے، اتنا ہی برا یہ بھی ہے کہ آدمی منفی احساس میں مبتلا رہے۔ پہلا طریقہ اگر دوسروں کے خلاف ظلم ہے، تو دوسرا طریقہ خود اپنے خلاف ظلم۔ اور دونوں ہی طریقے بلا شبہہ یکساں طورپر غیر مطلوب طریقے ہیں۔
موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو آزادی دی ہے۔ قیامت تک کسی کی آزادی ختم ہونے والی نہیں، اِس لیے قیامت تک برائی کا کلی خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف ایک ہی ممکن صورت ہے، وہ یہ کہ وہ امن اور خیر خواہی کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اور جب وہ دیکھے کہ لوگ اصلاح قبول کرنے والے نہیں ہیں، اُس وقت وہ وہی کرے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: علیک بنفسک، ودَعْ عنک العوام ( أبوداؤد، کتاب الملاحم، باب الأمر والنہی) یعنی اپنے آپ کو بچاؤ اور لوگوں کے معاملے کو اللہ کے حوالے کردو۔