معرفتِ اعلیٰ کی مثال
عبد اللہ بن ابی مُلیکہ کہتے ہیں کہ اُن سے بیان کیا ذکوان نے جو کہ حضرت عائشہ کے دربان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس آئے اور انھوں نے حضرت عائشہ سے ملنے کی اجازت چاہی۔ میں حضرت عائشہ کے پاس گیا۔ اُس وقت ان کے بھتیجے عبد اللہ بن عبد الرحمن ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ عبد اللہ بن عباس آئے ہیں اور وہ آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ان کے بھتیجے ان کی طرف جھکے اور کہا کہ یہ عبد اللہ بن عباس ہیں۔ حضرت عائشہ اُس وقت موت کے قریب تھیں۔ انھوں نے کہا کہ چھوڑو ابن عباس کو۔ انھوں نے کہا کہ اے میری ماں، ابن عباس آپ کی اولاد کے صالحین میں سے ہیں۔ وہ آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو ان کو اجازت دے دو۔ پھر میں نے عبد اللہ بن عباس کو اندر داخل کیا۔ وہ بیٹھے اور کہا: آپ کو بشارت ہو، کیوں کہ آپ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب سے ملاقات میں اب اتنی ہی دوری ہے کہ روح آپ کے جسم سے نکل جائے۔ آپ، رسول اللہ صلی اللہ کی ازواج میں سب سے زیادہ محبوب تھیں اور رسول اللہ صرف پاک روح سے محبت کرسکتے تھے۔ ابواء کی رات میں آپ کا ہار گر گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے رات کو روانہ ہوئے، یہاں تک کہ منزل پر صبح کی۔ اُس وقت لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت (المائدۃ: 6) اتاری۔ یہ آپ کے سبب سے ہوا۔ اِس طرح امت کے لیے رخصت کا حکم اترا۔ اور آپ کے لیے ساتویں آسمان سے برأت لے کر جبریل امین اترے۔ چناں چہ ہر مسجد میں صبح و شام آپ کا ذکر ہونے لگا اور وہ آیتیں پڑھی جانے لگیں۔ اِس کو سن کر حضرت عائشہ نے کہا: دعْنی منک یا ابن عباس، فوا الذی نفسی بیدہ، لوددتُ أنّی کنت نسیاً منسیًّا (اے ابن عباس، مجھ کو چھوڑو۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تو یہ چاہتی ہوں کہ میں بھولی بسری بن جاؤں (الطبقات الکبری لابن سعد، جلد 8،صفحہ 51، بحوالہ: کتاب احکام النساء لعبد الرحمن بن علی الجوزی، صفحہ 431، الطبعۃ الثانیۃ، 1993، وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیۃ، قطر(