موت کا زندہ تصور

31 جنوری 2010 کو میرے چھوٹے بھائی انجینئر عبد المحیط خاں (پیدائش1932)کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت وہ فیض آباد میں تھے۔ ان کی عمر77 سال تھی۔میں نے اپنی لمبی عمر میں ہزاروں افراد کو مرتے ہوئے دیکھا ہے یا ان کی موت کی خبر سنی ہے۔ لیکن میرے بھائی کی موت میرے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اس نے میرے اندر ایک نیا تصور پیدا کیا۔ اس کو اگر میں کوئی نام دوں تو میں کہوں گا کہ موت کا زندہ تصور(living concept of death)۔

میں نے غور کیا کہ موت کے بارے میں یہ نیا شعور میرے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اصل یہ ہے کہ ہم لوگ 6بھائی بہن تھے۔ چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میرے سوا تمام بھائی بہن مرچکے ہیں۔ اِس اعتبار سے، اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اِس احساس سے مجھے سخت جھٹکا لگا۔ میں نے سوچا کہ میرے بھائی اور بہن کل تک اِسی دنیا میں تھے جہاں کہ میں ہوں، لیکن اب وہ ایک ایک کرکے مرچکے ہیں، یہاں تک کہ 6بہن بھائیوں میں اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ وہ لوگ اِس دنیا سے نکل کر ایک اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ اب نہ وہ مجھ سے مل سکتے ہیں اور نہ میں اُن سے مل سکتا۔ موت نے مجھ کو اپنے تمام بھائی بہنوں سے ابدی طورپر جدا کردیا۔

موت کیا ہے۔ موت ایک جبری انخلا (compulsory expulsion) کا معاملہ ہے۔ موجودہ زندگی میں ہر آدمی اپنے لیے ایک دنیا بناتا ہے— گھر، جائداد، بزنس، اولاد، تعلقات، شہرت، عوامی حلقہ، عہدہ، سماجی پوزیشن، وغیرہ۔ اِن تمام چیزوں کی بنیاد پر ہر آدمی کی اپنی ایک چھوٹی یا بڑی دنیا ہوتی ہے، جس کے اندر وہ اپنے صبح و شام گزارتا ہے۔ وہ اس کو اپنی دنیا سمجھتا ہے۔ لیکن اچانک موت کا وقت آجاتا ہے اور فرشتے اس کو جبری طورپر موجودہ دنیا سے نکال کر اُس دنیا میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں اس کے پاس اپنے ذاتی وجود کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا— موت کے واقعے کو صرف وہ شخص جانتا ہے جو اِس حقیقت کا زندہ شعور رکھتا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom