عجز اور اختیار

قرآن کی سورہ نمبر 35 کی ایک آیت یہ ہے: یا أیّہا الناس أنتم الفقراء إلی اللہ، واللہ ہو الغنی الحمید (فاطر: 15) یعنی اے لوگو، تم سب اللہ کے محتاج ہو۔ اور اللہ بہت بے نیاز اور تعریف والا ہے۔ یہی بات ایک حدیث میں اِن الفاظ میں آئی ہے: یا عبادی، کلّکم ضالّ، إلا مَن ہدیتُہ، فاستہدونی أہدِکم۔ یا عبادی، کلّکم جائع إلا من أطعمتہ، فاستطعمونی أطعمکم۔ یاعبادی، کلّکم عارٍ إلاّ من کسوتہ، فاستکسونی أکسُکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ، باب تحریم الظلم) یعنی اے میرے بندو، تم سب کے سب بھٹکے ہوئے ہو، سوا اُس کے جس کو میں راہ دکھاؤں۔تم مجھ سے رہنمائی مانگو، میں تم کو رہنمائی دوں گا۔ اے میرے بندو، تم سب کے سب بھوکے ہو، سوا اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھانا دوں گا۔ اے میرے بندو، تم سب کے سب عاری ہو، سوا اُس کے جس کو میں پہناؤں۔ تم مجھ سے طلب کرو، میں تم کو پہناؤں گا۔

اللہ نے انسان کو ہر اعتبار سے ایک کامل وجود دیا، لیکن انسان کو کسی بھی اعتبار سے ذاتی اختیار حاصل نہیں۔ انسان مکمل طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ اِس عجز کی تلافی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں اِس عجز کی تلافی بقدر ضرورت کی گئی ہے، جس کا اشارہ قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: واٰتاکم من کلّ ما سألتموہ (ابر اہیم: 34)۔ آخرت میں اہلِ جنت کے لیے اِس عجز کی تلافی بقدر خواہش کی جائے گی، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: ولکم فیہا ما تشتہی أنفسکم (حم السجدۃ: 31)۔

اِسی حقیقت کی دریافت سب سے بڑی معرفت ہے۔ قادرِ مطلق خدا کے مقابلے میں، اپنے عجزِتام کو شعوری طورپر دریافت کرنا، یہی معرفت کاآغاز ہے۔ اِس دریافت کے بغیر کسی انسان کے اوپر معرفت کا دروازہ نہیں کھلتا— معرفت سے بہرہ مند لوگوں کے لیے جنت ہے، اور معرفت سے بے بہرہ لوگوں کے لیے جہنم۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom