موت کا سبق
17 جنوری 2010 کو جیوتی باسو (Jyoti Basu) کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 96 سال تھی۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے بڑے لیڈروں میں سے تھے۔ وہ مسلسل 23 سال تک ویسٹ بنگال کے چیف منسٹر رہے۔ ان کی وفات کا سبب ڈاکٹروں نے جسم کے کئی اعضا کا فیل ہوجانا (multi organ failure) بتایا ہے۔
انسان کو اِس دنیا میں جو جسم ملا ہے، وہ ایک مکمل نوعیت کا زندہ کارخانہ ہے۔ اِس میں بیک وقت بہت سے نظام کام کررہے ہیں— سوچنے کا نظام، دیکھنے کا نظام، سننے کا نظام، ہضم کا نظام، حرکتِ قلب کا نظام، سانس لینے کا نظام، اعضاء کو متحرک کرنے کا نظام، وغیرہ۔
یہ تمام نظام نہایت متوافق طورپر عمل کرتے ہیں تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی انسان ایک زندہ وجود کے طورپر دنیا میں اپنا کام کرے۔
مثلاً نظامِ حافظہ اگر کام نہ کرے تو آدمی کو کوئی بات یاد نہیں رہتی، نظامِ بصارت کام نہ کرے تو آدمی اندھا ہوجاتا ہے، نظامِ سماعت کام نہ کرے تو آدمی کو کچھ سنائی نہیں دیتا، نظامِ نطق کام نہ کرے تو آدمی گونگا ہو جاتا ہے، نظام ہضم کام نہ کرے تو آدمی کی صحت خراب ہوجاتی ہے، نظامِ حرکت کام نہ کرے تو آدمی اپاہج بن جاتا ہے۔ نظامِ تنفس کام نہ کرے تو آدمی کے لیے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور اگر نظامِ قلب کام نہ کرے تو آدمی کے لیے زندہ رہنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے، وغیرہ۔
موت اِس حقیقت کا اعلان ہے کہ انسان کے وجود کے مختلف نظام کسی اور کے قبضۂ اختیار میں ہیں۔ وہ جب تک چاہے، انسان کو زندہ رکھے اور جب چاہے، انسان پر موت طاری کردے۔ ہر روز دنیامیں موت کے تقریباً ایک لاکھ واقعات ہوتے ہیں جو انسان کو یہ سب سے بڑی خبر سنا رہے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی سب سے بڑی خبر ہے جس کا شعوری علم کسی زندہ انسان کو نہیں۔