خیر ِ امت

قرآن کی سورہ نمبر 3 کی ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس، تأمرون بالمعروف، وتنہون عن المنکر، وتؤمنون باللّٰہ (آل عمران: 110) یعنی تم بہترین گروہ ہو، جس کو لوگوں کے واسطے نکالا گیا ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

قرآن کی اِس آیت میں، خیر امت کا مطلب خیر الامم یا افضل الامم نہیں ہے۔ قرآن کے یہ الفاظ دراصل امت کی مسئولیت (responsibility) کو بتاتے ہیں۔ اِس مسئولیت کی طرف اشارہ ’النّاس‘ کے لفظ میں پایا جاتا ہے، یعنی لتکونوا شہداء علی الناس (البقرۃ: 143)۔ اِس آیت کے ذریعے یہ اعلان کیا گیا کہ خاتم النبیین کے بعد پیغمبرانہ رول کی ادائیگی کے لیے امت محمدی کا تقرر کیاگیا ہے۔ پیغمبرکا کام شہادت علی الناس تھا۔ اب شہادت علی الناس کا یہی کام امت محمد ی کو قیامت تک انجام دیتے رہنا ہے (لیکون الرسول شہیداً علیکم، وتکونوا شہداء علی الناس

لیکن امتِ محمدی کسی جامد گروہ کا نام نہیں ہے۔ دوسرے انسانی گروہوں کی طرح، امت محمدی میں بھی موت وحیات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِس طرح ایسا ہوتا ہے کہ ایک نسل اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی جگہ دوسری نسل آجاتی ہے۔ اِس طرح توالد و تناسل کے ذریعے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امت کی حیثیت حکماً تو ہمیشہ یکساں طورپر باقی رہتی ہے، لیکن امت کے افراد ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً صحابہ کے گروہ کے بعد تابعین کا گروہ، تابعین کے گروہ کے بعد تبع تابعین کا گروہ، اور تبع تابعین کے گروہ کے بعد ہر دور کے دوسرے مسلم گروہ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم عصر مسلم گروہ (صحابہ) کی تربیت براہ راست کی تھی۔ اِس پیغمبرانہ تربیت کو قرآن میں تزکیہ (البقرۃ: 129) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبراسلام کی تربیت کے ذریعے صحابہ خیر امت کی پہلی ٹیم بنے۔ اب سوال یہ ہے کہ بعد کی نسلوں کو دوبارہ خیر امت کا مصداق بنانے کا طریقہ کیا ہوگا۔ یہی وہ بات ہے جس کو آیت کے اگلے حصے میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر۔اس آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد تآمُر بالمعروف اور تناہی عن المنکر ہے، یعنی اہلِ ایمان کا آپس میں ایک دوسرے کے اوپر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا۔ اِس سے مراد دراصل داخلی تربیت کا نظام ہے۔ دوسرے الفاظ میں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حیثیت اصلاحی تدابیر (corrective measures) کی ہے جو امت کو نسل درنسل مسلسل طورپر حالتِ خیر پر باقی رکھنے کی ضمانت ہے۔

خیر أمّۃ ‘سے مراد امت کی نمائندہ حیثیت ہے۔ ’للناس‘ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اِس امت کا خارجی نشانہ شہادت علی الناس ہے۔ ’تأمرون بالمعروف، وتنہون عن المنکر‘ کے الفاظ میں، داخلی تربیت کے نظام کو بتایاگیا ہے۔ ’تؤمنون باللہ‘ سے مراد امت کے افرادمیں زندہ ایمان کو مسلسل طورپر باقی رکھنا ہے۔ یہی نظام امت کو، خیر امت کی حالت پر باقی رکھنے کی ضمانت ہے۔ امت کے اندر اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام باقی نہ رہے تو اللہ کے نزدیک امت کی حیثیت العیاذ باللہ، ملعون امت کی بن جائے گی، نہ کہ خیر امت کی۔ یہ انتباہ خود قرآن اور حدیث میں واضح طورپر دیاگیا ہے۔

اِس معاملے کی سنگینی ایک حدیثِ رسول سے معلوم ہوتی ہے۔ یہ روایت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ الترمذی کے الفاظ یہ ہیں: لما وقعتْ بنو إسرائیل فی المعاصی نہتہم علمائہم فلم ینتہوا، فجالسوہم فی مجالسہم، واٰکلوہم وشاربوہم، فضرب اللہ قلوبَ بعضہم ببعض، فلعنہم علی لسان داؤد وعیسی ابن مریم ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ قال: فجلس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان متکئاً، فقال: لا، والذی نفسی بیدہ حتی تأطروہم أطْراً (کتاب التفسیر) یعنی جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑ گئے، اُن کے علماء نے ان کو روکا، مگر وہ نہیں رکے۔ پھر علماء ان کی مجلسوں میں بیٹھے۔ انھوں نے ان کے ساتھ کھایا اور ان کے ساتھ پیا، پھر اللہ نے لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے متاثر کردیا۔ چناں چہ اللہ نے داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے اُن پر لعنت کی۔ یہی بات قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے (ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ المائدۃ: 78)۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ آپ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم، جس کے قبضے میں میری جان ہے (لعنت کی حالت باقی رہے گی) یہاں تک کہ تم ان کو پوری کوشش سے روک دو۔

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: کلاّ، واللہ لتأمرنّ بالمعروف ولتنہونّ عن المنکر، ولتأخذنّ علی یدی الظالم، ولتأطرنّہ علی الحق أطْراً، ولتقصرنّہ علی الحق قصْراً، أو لیضربنّ اللہ بقلوب بعضکم علی بعض، ثمّ لیلعننّکم کما لعنہم (أبو داؤد، کتاب الملاحم) یعنی ہر گز نہیں، تم کو ضرور (آپس میں) معروف کا حکم دینا ہوگا اور تم کو ضرور ( آپس میں) منکر سے روکنا ہوگا، تم کو ضرور (آپس میں) ظالم کے ہاتھ کو پکڑنا ہوگا، تم کو ضرور اُسے حق کی طرف موڑنا ہوگا، تم کو ضرور اُس کو حق کی طرف لوٹانا ہوگا، ورنہ اللہ ضرور تمھارے دلوں کو ایک دوسرے سے متاثر کردے گا، پھر تم پر وہ اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح اُس نے اِس سے پہلے یہود پر لعنت کی۔

لعنت کوئی پر اسرار لفظ نہیں۔ لعنت سے مراد ہے— امت کے خیر کی حیثیت کا چھن جانا، یعنی جب تک امت کے افراد، خاص طورپر اس کے علماء امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کو واقعی طورپر زندہ رکھیں گے، اُس وقت تک امت خیر پر باقی رہے گی اور جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل حقیقی طورپر جاری نہ رہے تو اُس وقت امت کے خیر کی حیثیت لازماً چھن جائے گی۔ اور خیر کی حیثیت کے چھن جانے ہی کا دوسرا نام لعنت ہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد صرف کچھ جزئی چیزیں نہیں ہیں۔ مثلاً کسی مسلمان کا پاجامہ ٹخنے سے نیچا ہو تو آپ کہیں کہ اپنا پاجامہ ٹخنے سے اوپر کرو، کسی مسلمان کی داڑھی چھوٹی ہو تو آپ کہیں کہ اپنی داڑھی بڑھاؤ، کسی مسلمان کے سر پر ٹوپی نہ ہو تو آپ کہیں کہ اپنے سر پر ٹوپی رکھو، وغیرہ۔ اِس قسم کی باتیں شریعت سے زیادہ مسلم کلچر کا حصہ ہیں، اور مسلم کلچر کا تحفظ اپنی حیثیت کے اعتبار سے، صرف ایک قومی کام ہے۔ اِس قسم کی باتوں سے ہر گز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہیں ہوتا۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک اصولی کام ہے۔ اس کا تعلق شریعت کے اصولی معاملات سے ہے۔ جزئی معاملات یا کلچرل شناخت کے معاملات میں امر ونہی کرنے سے اس کا حق ادا نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر پچھلے کئی سو سال کے دوران جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا، اس میں دعوت الی اللہ کو حذف کردیا گیا، اور علماء اِس غلطی کی تصحیح کے لیے نہیں اٹھے۔ پچھلے تقریباً دوسو سال سے علماء، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، مسلح جہاد میں مشغول ہیں، اور علماء کی کسی جماعت نے یہ فتوی نہیں دیا کہ مسلح جہاد حکومت کا کام ہے، نہ کہ علماء کا کام۔ مسلم ملکوں میں مختلف جماعتیں اپنے ملک کی حکومتوں کے خلاف ’’خروج‘‘ کی تحریکیں چلا رہی ہیں، لیکن علماء کی کسی جماعت نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ قائم شدہ مسلم حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔

موجودہ زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان غیر مسلم قوموں کے خلاف نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہیں، مگر علماء کی کسی جماعت نے کھلے طور پریہ اعلان نہیں کیا کہ غیر مسلم قومیں ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں، اور مدعو سے نفرت کرنا جائز نہیں۔ بعد کی صدیوں میں کچھ لوگوں نے غیر مسلم علاقوں کے بارے میں مبتدعانہ طورپر یہ اعلان کیا کہ وہ دار الکفر یا دار الحرب ہیں، لیکن علماء کی کسی جماعت نے ایسا نہیں کیا کہ وہ اِس تصور کو کھلے طورپر غلط بتائیں اور یہ کہیں کہ ساری دنیا دار الانسان یا دار الدعوہ ہے، کوئی بھی علاقہ نہ دار الکفر ہے اور نہ دار الحرب۔

نہی عن المنکر یا تناہی عن المنکر کوئی پر اسرار لفظ نہیں۔ یہ عین اُسی چیز کا نام ہے جس کو عام زبان میں، نقد یا تنقید (criticism) کہاجاتا ہے۔ اِسی صفت کو حدیث میں المؤمن مراٰۃ المؤمن (أبوداؤد، کتاب الأدب) کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینہ کسی تحفظ (reservation) کے بغیر بے کم وکاست آپ کے چہرے کو دکھا دیتا ہے۔ اِسی طرح مومن کو ایسا ہوناچاہیے کہ وہ دوسرے مومن کے بارے میں کھلے طورپر اظہار خیال کرے۔ وہ کھلے طورپر اپنی نصیحت دوسرے کو پہنچا دے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب کہ مسلم معاشرے میں تنقید کو برا نہ مانا جائے، بلکہ تنقید کو کھلے دل کے ساتھ قبول کیاجائے۔

کسی مسلم معاشرے میں اگر کھلی تنقید کا ماحول نہ ہو تو یہ ایک سنگین خطرے کی علامت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دین کے بارے میں بے حسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ سنانے والے مفاد پرستی میں مبتلا ہیں، اور سننے والے خود پرستی میں جی رہے ہیں۔ کسی معاشرے میں نہی عن المنکر یا تناہی عن المنکر کے ماحول کا ختم ہوجانا اِس بات کی علامت ہے کہ وہ معاشرہ ایسے افراد سے خالی ہوگیا ہے جو خدا کے لیے تڑپے، جو خدا کے دین کی پامالی پر بے قرار ہو۔ مزید یہ کہ معاشرہ ایسے افراد سے بھی خالی ہوگیا ہے جو تنقید سننے کے بعد یہ کہہ سکیں کہ: میں غلطی پر تھا۔ایسا معاشرہ دینی اعتبار سے، ایک مردہ معاشرہ ہے۔ ایسا معاشرہ گویا کہ زندوں کی بستی نہیں، بلکہ وہ مردوں کا قبرستان ہے۔ جب کوئی معاشرہ اِس حالت تک پہنچ جائے تو اس کے اوپر سے خدا کی نصرت اٹھ جاتی ہے۔ خدا کی نصرت سے اِسی محرومی کو قرآن اور حدیث میں لعنت کہاگیا ہے۔

تؤمنون باللہ‘—اللہ پر زندہ ایمان رکھنا، اللہ پر زندہ یقین کا مسلسل طورپر ذہن میں باقی رہنا، یہی ایمان باللہ ہے۔ اور اِس قسم کا ایمان باللہ ہی اِس بات کی ضمانت ہے کہ امت اپنی مطلوب حالت پر مسلسل باقی رہے۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت کے اندر مسئولیت کا احساس تازہ رہے گا۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت شہادت علی الناس کے فرض کی ادائیگی میں مسلسل طورپر سر گرم رہے گی۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت کے افراد ایک دوسرے پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ مطلوب انداز میں انجام دیتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر زندہ ایمان تمام فرائض کی حسنِ ادائیگی کی یقینی ضمانت ہے۔

قرآن میں اللہ کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ:کل یوم ہو فی شأن (الرحمن: 29) یعنی اللہ ہر لمحہ ایک نئی شان کے ساتھ ہے۔ یہ اللہ کی صفت ہے۔ یہی صفت انسان کے اندر عبدیت کی سطح پر ہونا چاہیے۔ اللہ پر ایمان وہ ہے جو تخلیقی ایمان ہو، جو ہر لمحہ ایک نئی ذہنی سرگرمی کے ہم معنیٰ بن جائے۔ ایسا ایمان ہی کسی آدمی کو مسلسل طورپر زندہ یقین عطا کرسکتا ہے۔ ایسے ایمان والے لوگ ہی اُس ذمے داری کو حقیقی طورپر انجام دے سکتے ہیں جو خیر امت سے مطلوب ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom