بات بنانا
ایک باریش بزرگ ملاقات کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ میں بہت دن سے آپ کا ماہ نامہ الرسالہ پڑھتا تھا اور اس کو پسند کرتا تھا۔ آج دہلی آیا تو میری خواہش ہوئی کہ آپ سے ملاقات کروں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ عرصے سے الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں، تو یہ بتائیے کہ آپ نے الرسالہ کے مطالعے سے کیا پایا۔
وہ تعریفی کلمات بولتے رہے، لیکن وہ متعین طورپر یہ نہ بتاسکے کہ انھوں نے الرسالہ کے مطالعے سے کیا اخذ کیا ہے۔ میں نے اُن سے بار بار کہا کہ کہ آپ کوئی متعین مثال دیجئے، تاکہ میں سمجھ سکوں کہ آپ نے الرسالہ کو پڑھ کر اُس سے کیا اخذ کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔ آخر میں انھوں نے اپنے بیگ سے اپنے مدرسے کا ایک چھپا ہوا اشتہار نکالا اور کہا کہ ہم یہ مدرسہ تعمیر کررہے ہیں او رچاہتے ہیں کہ اِس مدرسے کی تعمیر میں آپ بھی اپنا کچھ زرِ تعاون عطا کریں۔
یہ اندازِ گفتگو آج کل بہت زیادہ عام ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے دل میں کچھ ہوگا، مگر اپنی زبان سے وہ کچھ اور بات بولیں گے۔ اِسی کو بات بنانا کہاجاتاہے۔ موجودہ زمانے میں یہ طریقہ اتنا زیادہ عام ہے کہ مشکل ہی سے اِس میں کوئی استثناء نظر آئے گا۔
بناوٹی انداز میں بات کہنے کا یہ کلچر بلا شبہہ اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو صاف گو ہو، جو باتوں کو اُسی طرح کہے جس طرح کہ وہ ہیں، جس کے سوچنے اور بولنے میں کوئی فرق نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ سچے مومن ہیں۔ بناوٹی باتیں کرنا، تکلف کی بولی بولناہے، اور صحابہ کہتے ہیں کہ: نُہینا عن التکلف ( صحیح البخاری، کاب الاعتصام، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال) یعنی ہم کو تکلف کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ تکلف کا انداز دراصل ایک قسم کی منافقت ہے، اورمنافقت کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔