توکّل کیا ہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے توکل کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے کہا: یا رسول اللہ، أعقِلُہَا وأتوکّل أوأُطلقہا وأتوکل، قال: أعقلْہا وتوکل (الترمذی، کتاب القیامۃ) یعنی اے خدا کے رسول، کیا میں اپنے اونٹ کو باندھ دوں اور توکل کروں یا میں اس کو چھوڑ دوں اور توکل کروں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے اونٹ کو باندھو اور پھر توکل کرو۔

اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ توکل کیا ہے۔ حقیقی توکل یہ ہے کہ آدمی بقدرِ امکان اسباب کو فراہم کرے اور بقیہ کے لیے اللہ پر بھروسہ کرے۔ ایک طرف وہ اپنی کوشش میں کمی نہ کرے اور دوسری طرف وہ بھروسہ رکھے کہ اِس دنیا میں کسی کام کی تکمیل اللہ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو عربی زبان کی ایک مثل میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: السعی منّی، والإتمامُ من اللہ (کوشش میری طرف سے اور تکمیل اللہ کی طرف سے)۔

اصل یہ ہے کہ اِ س دنیا میں ہر کام کے لیے انسان کو خود کوشش کرنا پڑتا ہے، انسان کو خود منصوبہ بنانا پڑتا ہے، انسان کو خود اپنے وسائل کو منظم طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے، اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے انسان کو خود حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا پڑتا ہے، انسان کو خود یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طورپر زیر عمل لائے۔ انسان اگر اپنے حصے کا کام نہ کرے تو مطلوب انجام تک پہنچنا کبھی اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔

اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس دنیا میں کسی بھی کام کو کرنے کے لیے انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر تمام تر خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ ہر معاملے میں کوشش انسان کی طرف سے ہوتی ہے اور انفراسٹرکچر کی فراہمی خدا کی طرف سے۔ اِسی انفراسٹرکچر کا تعلق توکل سے ہے۔ گویا کہ ہر معاملے میں انسان کا حصہ پچاس فی صد ہوتا ہے، اور خدا کا حصہ پچاس فی صد— اِسی بات کو مذکورہ حدیث میں اِس طرح کہا گیا ہے کہ اپنے اونٹ کو باندھو اور پھر خدا کی ذات پر بھروسہ کرو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom