کاغذی تحریر
انڈیا 1947 میں آزاد ہوا۔ آزادی سے پہلے یہاں کے بڑے بڑے لیڈر یہ کہتے تھے کہ آزادی کے بعد انڈیا کی سرکاری زبان (official language) ہندی زبان ہوگی۔
آزادی کے بعد انڈیا کا دستور (constitution) بنایا گیا۔ اِس دستور کے بنانے میں انڈیا کے تمام بہترین دماغ شریک تھے۔ اِس تحریری دستور کے آرٹکل نمبر 343 میں یہ فیصلہ درج کیا گیا کہ مرکزی حکومت کی سرکاری زبان ہندی ہوگی، البتہ ضرورت کے طور پر 15 سال تک انگریزی زبان کا استعمال جاری رہے گا:
The official language of the union shall be Hindi in Devanagri script.....For a period of fifteen years from the commencement of this constitution, the English language shall continue to be used for all the offical purposes of the Union for which it was being used immediately before such commencement.
اس دستوری فیصلے پر اب 60 سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے، مگرحال یہ ہے کہ انڈیا میں انگریزی زبان پہلے سے بھی زیادہ غالب زبان بن چکی ہے اور ہندی زبان پہلے سے بھی زیادہ پیچھے چلی گئی ہے۔ اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاغذی تحریریں زندگی کی تشکیل نہیں کرتیں۔ قوموں کی تاریخ حقیقی حالات کی بنیاد پر بنتی ہے، نہ کہ اُن الفاظ کی بنیاد پر جن کو کاغذ پر لکھ دیا گیا ہو۔
بد قسمتی سے موجودہ زمانے کے تمام لیڈر اِس حقیقت سے بے خبر رہے۔ ہر لیڈر کاغذی تحریر کے ذریعے قوم کی قسمت بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ آخر میں معلوم ہوا کہ اِن کاغذی تحریروں کی حقیقت پانی کی سطح پر لکھی ہوئی تحریروں سے زیادہ نہ تھی۔
ایسی حالت میں ہندستانی لیڈروں اور پاکستانی لیڈروں کے لیے کرنے کا اصل کام یہ تھاکہ وہ لوگوں کے اندر شعوری بیداری لائیں، وہ لوگوں کے اندر نیشنل اسپرٹ پیدا کریں، وہ ریاست بنانے سے پہلے سماج بنانے کا کام کریں۔ یہ دراصل انسانی سماج ہے جو ریاست کی تشکیل کرتا ہے، نہ کہ کوئی کاغذی دستاویز۔