نماز کلچر
قرآن کی سورہ نمبر 74 میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں اہلِ جہنم سے پوچھا جائے گا کہ تم لوگوں کو کس چیز نے جہنم میں ڈالا، وہ کہیں گے کہ ہم نماز ادا کرنے والوں میں سے نہ تھے: قالوا لم نک من المصلّین (المدثر: 43) اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معروف معنوں میں وہ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ ایسا سمجھنا نماز کی تصغیر ہے۔ اِس قول کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ہم آدابِ نماز کی پیروی کرنے والے نہ تھے، ہم نے دنیا میں نماز کلچر کو اختیار نہیں کیا تھا۔
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ نماز کلچر کیا ہے۔ نماز کلچر سے مراد ہے قلبِ خاشع کے ساتھ زندگی گزارنا (المؤمنون: 2)، وقت کی پابندی (النساء: 103)، فحشاء اور منکر سے رکنا (العنکبوت: 45)، اجتماعی زندگی گزارنا (البقرۃ: 43)، صابرانہ مزاج کے ساتھ دنیا میں رہنا (البقرۃ: 153)، قربانی کی اسپرٹ کا حامل ہونا (الکوثر:2)، سہو کی نفسیات سے بچنا (الماعون: 5)، یادِ الٰہی میں جینا (طٰہٰ:14)، اپنے معاملات کا نگراں بن جانا (المعارج:34)، مستقل مزاج ہونا (المعارج: 23)، پاکیزگی کے ساتھ رہنا (المائدۃ:6)، مرکز رُخی زندگی گزارنا (البقرۃ:143)، وغیرہ۔
اِسی طرح حدیث کے مطابق، کئی چیزیں ہیں جو نماز کے جز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً نماز کے آخر میں سلام پھیرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصلی کے دل میں دوسروں کے لیے امن اور سلامتی کا جذبہ ہو۔ یہ تمام چیزیں معنوی اعتبار سے بلا شبہہ اجزائِ صلاۃ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِن کے مجموعے کو آدابِ نماز یا نماز کلچر کہاجاسکتا ہے۔
حقیقی نماز وہ ہے جو مصلی کے اندر اِن تمام صفات کو پیدا کرے۔ جو آدمی اِس طرح نماز ادا کرے کہ یہ تمام چیزیں اس کی زندگی کا جز بن جائیں، وہی حقیقی معنی میں مصلی ہے، اور ایسے ہی مصلی آخرت میں خدا کی ابدی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔