قیامت کی ایک علامت
نئی دہلی کے وگیان بھون میں 21 نومبر 2009 کو ٹررازم کے موضوع پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ انڈیا کے مشہور لیڈر مسٹر رام جیٹھ ملانی نے اِس موقع پر ایک تقریر کی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، انھوں نے جہادی نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہادیوں کے عقیدے کے مطابق، شہید آدمی مرتے ہی جنت میں جگہ پائے گا، جہاں اس کو حوروں کی رفاقت ملے گی۔ انھوں نے خدا کے تصور کا مذاق اڑایا۔ انھوں نے کہا کہ خدا ان کی مدد کے قابل نہیں ہوگا، کیوں کہ اب بوڑھا ہو کر وہ الزمائر کی بیماری میں مبتلا ہوگا، یعنی شدید قسم کی ذہنی بیماری میں:
Ram Jethmalani criticized the jihadi doctrine, which allegedly propagates, in his words, the belief that martyrs would “get a place in heaven and the company of the opposite sex there.” He spokes fun at the idea of God. He said: “God will not help as he is suffering from Alzheimer’s disease”. (The Times of India, New Delhi, November 22, 2009, p. 9)
یہ واقعہ علامتی طورپر بتاتا ہے کہ آج کا انسان گم راہی کے کس درجہ تک پہنچ چکا ہے، وہ درجہ ہے— کھلے طور پر خدا کا استہزا کرنا۔ موجودہ زمانے کے جہادی لوگوں کا نظریہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے، اُس کا خدا کے دین سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مسٹر جیٹھ ملانی کی بات اس سے بھی زیادہ بے بنیاد ہے۔ یہ نعوذ باللہ، خدا کا مذاق اڑانا ہے۔
غالباً یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ دجال کی پیشانی پر کفر لکھا ہوا ہوگا (الدّجّال مکتوب بین عینہ: ک، ف، ر۔ صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال)۔ پیشانی پر ’’کفر‘‘ کا لکھا ہوا ہونا ایک استعارہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے— کھلے طور پر انکار اور استہزا کا رویہ اختیار کرنا۔ یہ خدا کے خلاف کھلی بغاوت ہے، اور جب خدا کے خلاف کھلی بغاوت ہونے لگے تو اس کے بعد لوگوں کو صرف قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔