فتنۂ دُہیماء

پیغمبر اسلام نے قیامت سے پہلے کے زمانے کے لیے بہت سی پیشین گوئیاں کی ہیں۔ اُن میں سے ایک پیشین گوئی یہ ہے کہ آخری زمانے میں قیامت سے پہلے ایک سنگین واقعہ پیش آئے گا۔ اِس واقعے کو فتنۂ دہیماء کہا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ— آخری زمانے میں فتنۂ دُہیماء ظاہر ہوگا۔ اِس امت کا کوئی بھی شخص نہیں بچے گا جو اِس فتنے کی زد میں نہ آجائے (…ثم تکون فتنۃ الدُّہیماء، لا تدع أحداًمن ہذہ الأمۃ إلا لطمتْہ لطْمۃً (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم):

It will hit everyone without any exception.

اِس حدیثِ رسول میں دُہیماء کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دہیماء کے لیے مشہور عربی لغت لسان العرب میں یہ الفاظ آئے ہیں: الفتنۃ السّوداء المُظلمۃ (12/211)۔ لسان العرب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دہیماء کی تصغیر مبالغہ کے لیے ہے، یعنی فتنۂ دہیماء بہت زیادہ سیاہ اور بہت زیادہ تاریکی پیدا کرنے والا فتنہ ہوگا۔اِس حدیث کے مطابق، فتنۂ دہیماء کا زمانہ مکمل تاریکی کا زمانہ (age of total darkness) ہوگا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنۂ دہیماء سے مراد وہی دور ہے جو بیسویں صدی عیسوی میں پوری طرح آیااور اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس قسم کا دور صرف اُس وقت پیدا ہوسکتا تھا، جب کہ پرنٹنگ پریس ظہور میں آچکا ہو اور انسانی علم میں بہت زیادہ ترقی ہوچکی ہو، اوراِسی کے ساتھ دوسرے موافق مواقع پیدا ہوچکے ہوں۔

موجودہ زمانہ اِسی عظیم فتنے کا زمانہ ہے۔ اِس زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مغالطہ آمیز تصورات ایک فلسفے کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اِس سے پہلے مغالطہ (fallacy)صرف ایک سادہ قسم کا مغالطہ ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں مغالطہ نے ایک باقاعدہ فلسفے کی صورت اختیار کرلی ہے، حتی کہ لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو سمجھیں۔ آج غلط تعبیرات کا ایک جنگل ہے جس میں انسان زندگی گزار رہا ہے۔ یہ فکری تاریکی (intellectual darkness) کا زمانہ ہے۔ اِس دور کو مغالطہ انگیز فلسفوں کا دور کہا جاسکتا ہے:

Age of deceiving philosophies

فتنۂ دہیماء کا یہ زمانہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں وہ تمام فلسفے ابھرے جو مغالطہ آمیزی کے فلسفے تھے اور جنھوں نے جدید دور کے اکثر لوگوں کو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر متاثر کیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مختلف قسم کے جو مفاسد پیداہوئے، وہ بنیادی طورپر اِنھیں فلسفوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ اِن فلسفوں کے پیدا کرنے میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہے۔ اُن میں سے چار ناموں کا ذکر یہاں علامتی طورپر کیا جاتا ہے:

چارلس ڈارون (وفات: 1882) کارل مارکس (وفات: 1883)

سِگمنڈ فرائڈ(وفات: 1939) سید ابوالاعلیٰ مودودی (وفات: 1979)

ذیل میں اِن چاروں کے افکار کا مختصر تجزیہ کیا جاتا ہے۔

چارلس ڈارون (Charles Darwin) ایک برٹش اسکالر تھا۔ لمبی ریسرچ کے بعد اُس نے وہ نظریہ پیش کیا جس کو عضویاتی ارتقا (organic evolution) کا نظریہ کہاجاتا ہے۔ اپنے نظریے کی حمایت میں اُس نے دو کتابیں لکھیں:

1. On the Origin of Species (1859) 2. The Descent of Man (1871)

ڈار ون کے اِس نظریہ یا مفروضہ کے مطابق، بہت پہلے خدا نے زندگی کا ابتدائی فارم (امیبا) پیدا کیا۔ اس کے بعد خود بخود ایک پراسس چلا۔ اِس پراسس کے دوران طبیعی انتخاب (natural selection) اور بقائِ اصلح (survival of the fittest) کے اصول کے تحت تمام انواعِ حیات اپنے آپ بنتے چلے گئے، اور آخر میں انسان وجود میں آگیا۔

یہ نظریہ مکمل طورپر ایک غیر ثابت شدہ نظریہ تھا۔ اس کی حیثیت ایک قیاسی مفروضہ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ لیکن بعض دیگر اسباب سے وہ اہلِ علم طبقے کے درمیان بہت تیزی سے پھیلا، یہاں تک کہ اس کو جدید تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان عمومی قبولیت (general acceptance) کا درجہ حاصل ہوگیا۔

چارلس ڈارون نے اپنے نظریے میں اگرچہ ایک ابتدائی خالق کے طورپر خدا کا وجود تسلیم کیا تھا، لیکن اِس نظریے کے عین تقاضے کی بنا پر ایسا ہوا کہ انسان کی زندگی سے خدا (God) بحیثیت ایک مؤثر عامل کے ختم ہوگیا۔ اب انسان کو اس کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ دعاء اور عبادت کے ذریعے خدا سے تعلق قائم کرے، وہ اپنی زندگی میں خدا کو اپنا رہنما بنائے، وہ خدا کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ (accountable) سمجھے، وہ خدا سے خوف کرے اور خدا سے محبت کرے، وہ خدا کی جہنم سے ڈرے اور خدا کی جنت کا حریص بنے— اِس قسم کی تمام چیزیں جدید انسان کے لیے غیر متعلق (irrelevant) ہوگئیں۔ اِس نظریے نے تاریخ میں پہلی بار ایک نیا دور پیدا کیا۔ اِس دور کو مبرَّر برائی کا دور (age of justified evil) کہاجاسکتا ہے۔

اِس سلسلے میں دوسرا نام کارل مارکس (Karl Marx) کا ہے۔ کارل مارکس نے وہ نظریہ پیش کیا جس کو جدلیاتی مادّیت (dialectical materialism) کہاجاتا ہے۔قدیم فلسفی زرتشت (وفات: 551 ق م) نے کہا تھا کہ دنیا اچھی طاقتوں اور بری طاقتوں کے درمیان مسلسل جنگ کا نام ہے:

The world is a perpetual battle ground between good and evil forces.

مارکس نے اِس نظریے کو سیکولر معنوں میں استعمال کرتے ہوئے دکھایا کہ انسانی تاریخ ہمیشہ استحصال کرنے والوں (exploiters) اور استحصال کا شکار ہونے والوں (exploited) کے درمیان بٹی رہی ہے۔ اس نے اس نظریے کو لازمی قانونِ طبیعی کا درجہ دیتے ہوئے کہا کہ اِس قانون کی بنا پر انسانی سماج میں ہمیشہ ایک طبقاتی جنگ (class war) جاری رہتی ہے۔ اور اِس طرح تاریخ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف سفر کرتی رہتی ہے۔

مارکس کا یہ نظریہ مخصوص اسباب سے، انیسویں صدی کے نصف ثانی اور بیسویں صدی کے نصف اول کے درمیان عالمی طورپر پھیلا۔ 1917 میں جب روس میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو حکومت کے زور پر اِس نظریے کو مزید پھیلاؤ ملا۔ اِس طرح ساری دنیا میں ایک ایسا ماحول بنا جس میں مبرّر تصادم (justified conflict) کو بہت زیادہ فروغ ہوا۔ تقریباً پوری دنیا میں تخریبی سیاست، انقلابی عمل کے خوب صورت نام سے رائج ہوگئی۔

اِس سلسلے میں تیسرا نام سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) کا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے وہ نظریہ پیش کیا جس کو دوسرے الفاظ میں، مبرّر اِباحیت (justified permissiveness) کہاجاسکتا ہے۔ اس نے اپنی ’’تحقیق‘‘ کے ذریعے دکھایا کہ خواہشات (desires) کو دبانا شخصیت کے ارتقا میں سخت مہلک ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ خواہشات کو اظہار کا بے روک ٹوک موقع دیا جائے، تاکہ انسانی شخصیت ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ سکے۔ فرائڈ نے دکھایا کہ دبی ہوئی صنفی خواہش (repressed sexual energy) شخصیت کے ارتقاء کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ اُس نے اِس بات کی وکالت کی کہ شخصیت کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ کم عمری ہی سے صنفی تعلقات قائم ہوں:

Emphasized importance of infantile sexuality in personality's development.

فرائڈ کا نظریہ بہت زیادہ مقبول ہوا، حتی کہ نظریاتی طورپر فرائڈ کو نہ جانتے ہوئے بھی آج کی دنیا کے بیش تر لوگ فرائڈ کے طریقے پر چل رہے ہیں۔ موجودہ زمانے میں بے قید تفریح (unchecked enjoyment) کا طریقہ جو ہر جگہ عام ہوگیا ہے، وہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر فرائڈ کے نظریے کا نتیجہ ہے۔ یہ نظریہ اب اِس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہر شعبے میں کھلے طورپر صنفی باتیں عام ہوگئیں ہیں، حتی کہ اب اخباروں میں جو نئے کالم دکھائی دیتے ہیں، اُن میں سے ایک کالم یہ ہوتا ہے:

Virginity On Sale

اوپر جن تین ناموں کا ذکر ہوا، وہ سیکولر نام تھے، وہ مذہبی رہنما کی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ اِس فہرست میں چوتھا نام سید ابو الاعلیٰ مودودی کا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان حالیہ زمانے میں سیاسی شکست کے جو واقعات پیش آئے، اُس نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے لیے زرخیز زمین فراہم کردی۔ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں ساری دنیا میں مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوا۔ دھیرے دھیرے دو بڑے مسلم ایمپائر ختم ہوگئے— مغل ایمپائر،اور عثمانی ایمپائر۔

مسلم ایمپائر کے بعد مسلمانوں کے درمیان یہ تحریک شروع ہوئی کہ وہ سیاسی اقتدار کو پہلے کی طرح دوبارہ قائم کرسکیں۔ سید جمال الدین افغانی (وفات: 1897) کے زمانے تک یہ تحریک خالص سیاسی تحریک تھی۔ سید جمال الدین افغانی کا نعرہ تھا: الشرق للشرقیین۔ مگر سیاسی اقتدار کی بحالی کی یہ تحریک مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔

اِس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا۔ اِس نئے دور میں یہ کوشش کی گئی کہ اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کی جائے اور اِس طرح سیاسی جدوجہد کو مذہبی عقیدے کا مسئلہ بنا دیا جائے، تاکہ تمام دنیا کے مسلمان اِس سیاسی جدوجہد میں بھر پور طورپر شریک ہوسکیں۔ اِس نئے نظریاتی دور میں جن لوگوں نے کام کیا، اُن میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نام غالباً سب سے زیادہ نمایاں نام کی حیثیت رکھتا ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قرآن کی تفسیر (تفہیم القرآن) لکھی جس کو قرآن کی سیاسی تفسیر کہاجاسکتا ہے۔ قرآن کی اِسی قسم کی سیاسی تفسیر عرب دنیا میں سید قطب مصری (وفات: 1966) نے تیار کی جو ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ اِن لوگوں نے اپنی سیاسی تعبیر کے ذریعے دکھایا کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ قانون اور سیاسی اقتدار اس کا لازمی حصہ ہے۔ مسلمانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پولٹکل اقتدار حاصل کریں، تاکہ اسلام کو اس کے پورے سیاسی اور قانونی نظام کے اعتبار سے غالب اور نافذ کیا جاسکے۔

اِس سیاسی تعبیر کے دوبڑے نقصانات ہوئے۔ ایک، یہ کہ اسلام کی اصل تعلیمات کے نقطۂ نظر سے مسلمان کا اصل تعلق دوسری اقوام سے داعی اور مدعو کا تعلق ہے، لیکن اِس سیاسی تعبیر کے نتیجے میں یہ تعلق حریف اور رقیب کا تعلق بن گیا۔ دعوت کی روح مسلمانوں کے اندر عالمی سطح پر ختم ہوگئی۔

اِس سیاسی تعبیر کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام جو اصلاً اتباع (following) کا موضوع ہے، وہ نفاذ (enforcement) کا موضوع بن گیا۔ مسلم ملکوں میں دعوتی اور تعمیری کام پس پشت ہوکر رہ گئے، البتہ ہر جگہ نفاذِ اسلام کے نام پر مسلم حکمرانوں سے ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ اب اِس کی آخری حد یہ ہے کہ اِس سیاسی نظریے نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو متشدد (violent) بنا دیا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ فعّال تشدد (active violence) میں مبتلا ہیں، اور کچھ لوگ غیر فعال تشدد (passive violence) کا کیس بنے ہوئے ہیں۔ غیر فعال تشدد یہ ہے کہ تشدد پسندوں کو برا نہ سمجھا جائے۔ اُن پر خاموشی اختیار کی جائے، حتی کہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اس کو جواز (justification) فراہم کیا جائے۔

اِس سیاسی تعبیر کا آخری نتیجہ جو سامنے آیا ہے، وہ خود کش بم باری (suicide bombing) ہے۔ خود کشی کا فعل اسلام میں بلا شبہہ حرام ہے، مگر ساری دنیا کے مسلمان اس کو ’’قربانی‘‘ کا درجہ دئے ہوئے ہیں۔ عرب علماء نے یہ کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ یہ خود کشی نہیں ہے، بلکہ وہ استشہاد یعنی طلب شہادت (seeking martyrdom) ہے۔

اوپر کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ چیز جس کو ہم نے مغالطہ آمیز فلسفوں کا دور کہا ہے، اُس کو پیدا کرنے میں سیکولر اسکالر اور غیر سیکولر اسکالر دونوں کا حصہ ہے۔ سیکولرمفکرین نے یہ کیا کہ انھوں نے مغالطہ آمیز طورپر الحاد اور اباحیت کو جواز فراہم کردیا۔ دوسری طرف، مسلم مفکرین نے اسلام کی ایسی تعبیر کی جس کے نتیجے میں تشدد کا فعل مقدس جہاد کا فعل قرار پایا۔ اِنھیں افکار کا نتیجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ایک طرف، اخلاقی زوال (immorality) اپنی آخری حد تک پہنچ گیا ہے اور دوسری طرف، تشدد اور بم کلچر بھی روز مرہ کی ایک چیز بن گیا ہے۔ سیکولر تحریکوں نے اگر دنیا سے انسانی قدروں (human values) کا خاتمہ کردیا ہے، تو اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والوں نے بہ ظاہر یہ امکان ختم کردیا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور دعوت الی اللہ کا ضروری کام انجام دیا جاسکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom