داعی کا ذہن
دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انسان کے لیے اپنی خیر خواہی کا اظہار ہے۔ داعی وہی شخص بن سکتا ہے جس کے دل میں انسان کے لیے کامل خیر خواہی پائی جائے۔ یہ خیر خواہی یک طرفہ خیر خواہی ہوتی ہے۔ جو داعی، انسان کے لیے یک طرفہ خیر خواہ نہ ہو، وہ کچھ اور ہوسکتا ہے، مگر وہ داعی نہیں ہوسکتا۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔
انسان کے حق میں اپنی یک طرفہ خیر خواہی کو برقرار رکھنے کے لیے انسان کو مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیش آمدہ افکار اور واقعات کی ایسی توجیہہ تلاش کرے جو اُس کو کامل طورپر منفی سوچ سے بچائے اور اس کی مثبت مزاجی (positivity) کو مسلسل طورپر برقرار رکھے۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانے میں نوآبادیات (colonialism) کا زمانہ آیا۔ اُس زمانے میں سید جمال الدین افغانی (وفات:1897) موجود تھے۔ وہ اِس ظاہرے کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے۔ چناں چہ وہ اور ان کے جیسے دوسرے مسلم علماء اور رہنما منفی سوچ کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اِس طرح وہ داعی کے رول کے لیے نا اہل بن گئے۔
یہی معاملہ دوسرے تمام پہلوؤں سے ہوا ہے۔ موجودہ زمانے میں وطن پر مبنی قومیت (land-based nationality) کا نظریہ پیدا ہوا تو ڈاکٹر محمد اقبال (وفات:1938) اس کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے اور منفی رد عمل کے طورپر انھوں نے یہ اعلان کیا کہ:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
اِسی طرح موجودہ زمانے میں جدید جمہوریت (democracy) کا سیاسی نظریہ پیدا ہوا تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (وفات:1979) اس کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے اور اس کو لادینی جمہوریت قرار دے کر اُس کے مخالف بن گئے۔ اِس طرح اپنی اِس منفی سوچ کی بنا پر وہ جدید جمہوری دور میں داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
اِسی طرح مصر میں جمال عبد الناصر (وفات: (1970 کی قیادت میں سیکولربعث پارٹی حکمراں بن گئی۔ سید قطب (وفات: 1966) اِس ظاہرے کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے۔ اپنے منفی ذہن کی بنا پر انھوں نے اس کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ اِس طرح وہ جدید سیکولر دور میں داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
اِسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا سپر پاور بن کر ابھرا۔ اس نے دوسرے ملکوں میں مداخلت کی سیاست شروع کی تو ساری دنیا کے مسلم ذہن اس کے مقابلے میں منفی رد عمل کا شکار ہوگئے، وہ اِس جدید ظاہرے کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام مسلمانوں نے امریکا کو اسلام کا دشمن نمبر ایک (عدو الإسلام رقم واحد) سمجھ لیا۔ اِس طرح وہ جدید دور میں داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہے، وغیرہ۔
داعی کو دوسرے انسانوں کے درمیان دعوت الی اللہ کا کام کرنا پڑتا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام مکمل خیر خواہی کی بنیاد پر انجام پاتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں ہر فرد اور ہر گروہ کو آزدی حاصل ہے۔ اِس بنا پر لوگوں کی طرف سے بار بار ایسے قول اور فعل کا مظاہرہ ہوتا ہے جو داعی کے اندر منفی ذہن پیدا کردے۔ یہ صورتِ حال ہمیشہ پیش آتی ہے۔ اِس میں کسی دور یا کسی گروہ کا کوئی استثناء نہیں۔
اِس صورتِ حال کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ داعی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ ہر ناخوش گوار واقعے کی فوری طورپر مثبت توجیہہ تلاش کرلے اور اِس طرح وہ اپنے مثبت ذہن کو مسلسل طورپر باقی رکھے۔ داعی کی شخصیت کامل طورپر ایک مثبت شخصیت ہوتی ہے۔ داعی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اس کی مثبت شخصیت میں ادنیٰ ایروژن (erosion) پیدا ہو۔
حق کی دعوت کسی اعلان (announcement) کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ مدعو کے حق میں خیرخواہی کے اظہار کا نام ہے۔ یہ خیر خواہی کامل اور غیر مشروط درجے میں ہونی چاہیے۔ خیر خواہی میں ادنی کمی بھی داعی کو اِس کے لیے نااہل بنادیتی ہے کہ وہ دعوتِ حق کا مطلوب رول ادا کرسکے۔