اعزاز یا ڈیوٹی

بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہود کا اصل فریضہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے اُس سچائی کا اعلان کریں جو اُنھیں ان کے پیغمبروں کے ذریعے دی گئی ہے۔بائبل (یسعیاہ) میں یہود کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے— خداوند فرماتا ہے، تم میرے گواہ ہو، اور میرے خادم بھی جسے میں نے برگزیدہ کیا:

“You are my witnesses” says the Lord, “and My servant, whom I have chosen”. (Isaiah: 43: 10)

بائبل کی اِس آیت میں ’’برگزیدہ گروہ‘‘ (chosen people) کا لفظ یہود کے لیے اعزاز کا ٹائٹل (title of honour) کے طور پر نہیں تھا، بلکہ وہ ٹائٹل آف ڈیوٹی (title of duty) کے طورپر تھا۔ اُن کو اللہ نے اِس لیے چنا تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں اور آخرت میں اس کا انعام پائیں۔ لیکن یہود نے یہ کیا کہ انھوں نے دعوت کی ذمے داری کو چھوڑ دیا اور فخر کے طور پر یہ کہتے رہے کہ ہم خدا کے برگزیدہ گروہ ہیں۔

موجودہ زمانے کے مسلمان اِسی یہودی سنت کا اتباع کررہے ہیں۔ قرآن میں امتِ محمدی کے لیے خیرِ امت (آل عمران:110) کا لفظ آیا ہے، اور ان کی ذمے داری یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ہر زمانے میں قوموں کے سامنے خدا کے دین کی گواہی دیں (البقرۃ:143)۔ مگر مسلمانوں نے یہ کیا کہ ’’خیر امت‘‘ کو انھوں نے اپنے لیے اعزاز کاٹائٹل سمجھ لیا اور دعوت اور شہادت کی ذمے داری کو یکسر ترک کردیا۔ چناں چہ اب خدا کا دین مسلمانوں کے لیے فخر کا عنوان ہے، نہ کہ ڈیوٹی کا عنوان۔

یہ صورتِ حال بے حدتشویشناک ہے۔ قرآن میں صاف صاف یہ اعلان کیاگیا ہے کہ کسی گروہ کے ساتھ اللہ کا کوئی خصوصی رشتہ نہیں۔ چناں چہ فرمایا کہ: نہ مسلمان کی آرزوؤں پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو کوئی بھی برا کرے گا، وہ اس کا بدلہ پائے گا (النساء:123)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کے یہاں عمل کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا، نہ کہ خود ساختہ خوش خیالیوں کی بنیادپر۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom