علمِ توحید
توحید کا عقیدہ اسلام میں اساسی عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ توحید کے موضوع پر عربی اور دوسری زبانوں میں بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آپ اِن کتابوں کو پڑھیں تو اُن میں آپ کو غرض و غایت کے اعتبار سے، اِس طرح کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے: علمِ توحید سب سے افضل علم ہے۔ معاذ بن جبل کی مشہور روایت میں توحید کے عقیدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلیت دی تھی۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ توحید کا علم سب سے افضل علم ہے، وغیرہ۔
علمِ توحید بلاشبہہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔لیکن عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اہمیت اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ ایک افضل علم ہے۔ علمی اعتبار سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ایک اساسی علم ہے۔ اساسی علم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر بقیہ اسلامی اعمال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ توحید کی اساس نہیں تو بقیہ اعمال بھی نہیں۔
توحید محض ایک روایتی عقیدے کا نام نہیں۔ توحید دراصل عظیم ترین فکری انقلاب ہے جو عظیم ترین فکری دریافت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ توحید یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے دریافت کرے۔ اللہ جو پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے، اس کی دریافت جب کسی انسان کو ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال پیدا ہوجاتاہے۔ اس کے اندر معرفت کا سمندر ایک طوفان بن کر داخل ہوجاتا ہے۔ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں ایک کامل نوعیت کی تبدیلی آجاتی ہے۔ اِس کے بعد وہ ایک نیا انسان بن جاتاہے۔ اِسی نئے انسان کا نام مؤحد انسان ہے۔
اسلامی دعوت کے کام کا آغاز یہ ہے کہ انسان کے اندر عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ایک فکری انقلاب برپا کیا جائے۔ اِس فکری انقلاب کے بعدہی ایک انسان موحد انسان بنتا ہے، اور جب اِس انقلابی فکر کے حامل بہت سے افراد پیدا ہوجائیں تو اُن کے مجموعے سے وہ معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کو اسلامی معاشرہ کہاجاتاہے۔