اتباعِ یہودیت
موجودہ زمانے کے یہودیوں کی سب سے بڑی تحریک وہ ہے جس کو صہیونیت (Zionism) کہاجاتا ہے۔ یہ تحریک 1897 میں شروع ہوئی۔ اس کا مقصد تھا— فلسطین میں دوبارہ یہودی ریاست قائم کرنا:
Zionism: Political and cultural movement seeking to re-establish Jewish national state in Palestine.
دوسرے لفظوں میں یہ کہ صہیونیت، زمین مرکزی سیاست (land-based politics) کا دوسرا نام ہے۔ موجودہ زمانے کے یہودی اپنی تمام طاقت، اپنا تمام سر مایہ، اپنے تمام وسائل اِس سیاست کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان، حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، اِسی یہودی اُسوہ کا اتباع کررہے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سرگرمی براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر اِسی مبنی برزمین سیاست (land-based politics) کا نمونہ ہے۔ ہر جگہ کے مسلمانوں نے اِسی قسم کی تحریک چلائی کہ وہ زمین کے ایک خطے پر قبضہ کریں اور وہاں اپنی حکومت قائم کریں۔ پاکستان، فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، اراکان، فلپائن، سنکیانگ، وغیرہ۔ ساری دنیا کے مسلمان اِس مبنی بر زمین سیاست میں یا تو عملاً شریک ہیں، یا وہ اِس انداز میں سوچتے ہیں، یا اپنی تقریر اور تحریر میں اِسی کا چرچا کرتے ہیں۔
یہ بلاشبہہ یہودی طریقہ کا اتباع ہے۔ اِس قسم کے قومی اور سیاسی جھگڑے، خواہ وہ اسلام کے نام پر کئے جائیں، لیکن وہ اسلام نہیں۔ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی سیاست ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی کی سرگرمیاں ہیں۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اِس قسم کی قومی اور سیاسی سرگرمی کو مطلق طورپر ترک کردیں، وہ اپنے ملی عمل کی ازسرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ اِس قسم کی قومی سیاست کا کوئی مثبت انجام نہ اب تک برآمد ہوا ہے اور نہ آئندہ برآمد ہونے والا ہے۔