پانی کی اہمیت
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو واٹر مینج مینٹ کہاجاسکتا ہے، یعنی پانی کو انتہائی کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کرنا۔ مدینہ کا واقعہ ہے۔ پیغمبر اسلامﷺنے ایک صحابی سعد کو وضوکرتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے سعد، یہ کیسا اسراف ہے۔ انھوں نے کہا کیا وضو کے پانی میں بھی اسراف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، اگر چہ تم ایک بہتے ہوئے دریا کے کنارے ہو: وإن کنت علی نہر جار(مسند احمد، 4/221)۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ پانی نہیں تو زندگی بھی نہیں۔ عبد الرحیم خان خاناں نے بجا طورپر کہاتھا:
رحِمَن پانی راکھیو، بِن پانی سب سُون!
دنیا میں ایک ارب 40 مربع کلومیٹر پانی ہے۔ اس کا 97.5 فی صد حصہ سمندر کا کھاری پانی ہے۔ جس کا استعمال نہ کھیتی کے لیے کیا جاسکتا ہے اور نہ پینے کے لیے۔ سمندر کے پانی کو صاف کرنے کے لیے بہت سے طریقے اپنائے گئے ہیں، مگر وہ کارگر نہ ہوسکے۔عالمی صحت تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، انسان کو پینے کے لیے کم ازکم 3 لیٹر پانی چاہیے۔ دودھ دینے والے مویشیوں کو 50 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گائے کے ایک لیٹر دودھ کے لیے 8 سو لیٹر پانی صرف ہوتاہے۔ اِسی طرح ایک کلو چاول پیدا کرنے کہ لیے 3ہزار لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں موجود ڈیڑھ فی صد پانی برف کی شکل میں ہے اور ایک فی صد پانی دریا اور تالاب وغیرہ کی شکل میں۔ اِس ایک فی صد پانی کا 60 فی صد حصہ کھیتوں اور کارخانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بقیہ 40 فی صد حصہ پینے کے لیے اور روز مرہ کے استعمال کے لیے صرف ہوتا ہے۔ زمینی پیداوار کا 90 فی صد پانی کاشت کاری میں استعمال ہوجاتا ہے۔ عالمی صحت تنظیم کے ادارے کے مطابق، پانی بہت تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے۔2025 تک صرف انڈیا میں ایک تہائی لوگ پانی کی قلت کا سامنا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ بربادی کی حد تک پانی کے استعمال اور گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل طوپر گرتی جارہی ہے۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ پانی اور دیگر خدائی عطیات کا استعمال انتہائی احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔