مسرت کی تلاش
1947 سے پہلے ہندستان میں برٹش راج تھا۔ وہ دو سو سال تک قائم رہا۔ اُس زمانے میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان تھے۔ وہ اُس وقت ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ بظاہر اُن کو تمام دُنیوی چیزیں ملی ہوئی تھیں۔
اُن کے یہاں تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ اُن کا نام انھوں نے فرحت اور راحت اور عشرت رکھا۔ اِس واقعے کو لے کر ایک شاعر نے اُن کے بارے میں یہ شعر کہا تھا:
فرحت و راحت وعشرت ہمہ فرماں بردار
مگر یہ صورت حال دیر تک قائم نہیں رہی۔ اگست 1947 میں ملک کی تقسیم ہوئی۔ اِس کے بعد ان کا خاندان بکھر گیا۔ وہ لوگ مختلف قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے۔ یہ پریشانی پھر کبھی ختم نہ ہوسکی۔ خاندان کا ہر فرد مایوسی کا شکار ہو کر مرگیا۔
یہی اِس دنیا میں کم و بیش ہر عورت اور ہر مرد کا حال ہے۔ انسان ہر قسم کی خواہشوں سے بھر ہوا ہے۔ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کرکے کامل مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان اپنے آپ میں مجسم مسرت (pleasure incarnate) ہے۔
لیکن اِسی کے ساتھ دوسری سنگین حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اِس دنیا میں اپنی مسرتوں کی تکمیل نہیں کرپاتا۔ ہر شخص مسرت کی تلاش میں سرگرم رہتاہے، لیکن ہر شخص مسرت کو حاصل کیے بغیر مرجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق نے انسان کو مسرت کا متلاشی بنایا، لیکن خالق نے موجودہ دنیا میں مسرت کے حصول کا موقع اُس کے لیے نہیں رکھا۔
انسان کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موجودہ دنیا میں خواہش (desire) کا تجربہ کرے، اور خواہشوں پر کنٹرول کرکے اس کی تکمیل (fulfillment) کے لیے وہ موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا کا انتظار کرے— اِسی دریافت کا نام کامیابی ہے، اور اِسی دریافت سے محرومی کا نام ناکامی۔