وجودِ خدا، وجودِ انسان
بیسویں صدی عیسوی میں انسانی تلاش وجودِ خدا کے موضوع پر مرتکز ہوتی تھی، مگر بیسویں صدی کے خاتمے کے ساتھ ہی اِ س دور کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اکیسویں صدی میں انسانی تلاش کا مرکزی نقطہ خود انسان کا وجود ہے۔ اب سارے غور وفکر کا موضوع انسان بن چکا ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے اِس تبدیلی کو جاننا بے حد ضروری ہے۔
وجودِ خدا کی نسبت سے، انسان کا علم کس آخری منزل تک پہنچا ہے، اِس موضوع پر ماہ نامہ الرسالہ میں مختلف مضامین آچکے ہیں۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو ’’سائنس سے معرفت تک‘‘ (الرسالہ، اگست2009)۔ اب یہ موضوع اصولی طورپر ایک طے شدہ موضوع (settled subject) کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ عملاً اب وہ ماضی کا سبجکٹ ہے، نہ کہ حال کا سبجکٹ۔
اکیسویں صدی کے اہلِ علم اور اہلِ فکر جس سنگین مسئلے سے دوچار ہیں، اس کا تعلق خود انسان کے اپنے وجود سے ہے۔ آج ساری دنیا میں جس موضوع پر سوچا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ— گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے جو زمین پر قائم شدہ لائف سپورٹ کے فطری نظام کو تیزی سے تباہ کررہا ہے۔ مسلّح تحریکوں کے ظاہرہ کا خاتمہ کس طرح کیا جائے جو امنِ عالم کے لیے ایک سنگین چیلنج بنا ہوا ہے، آزادی کے بے قید تصور کو کس طرح قابو میں لایا جائے جس نے دنیا کو عملاً انارکی کا جنگل بنادیا ہے، اسلحہ کی تجارت پر کس طرح کنٹرول کیا جائے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا میں خطرناک ہتھیاراسی طرح خریدے جاسکتے ہیں جس طرح شاپنگ سنٹر میں عام کنزیومر گڈس (consumer goods)، وغیرہ۔
اِسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے ادارے نے دو کتابیں خصوصی اہتمام کے ساتھ چھاپی ہیں۔ ایک، قرآن کا انگریزی ترجمہ۔ اور دوسرے، پرافٹ آف پیس (The Prophet of Peace)۔ ضرورت ہے کہ اِن دونوں کتابوں کو عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔