اختلاف کو نظر انداز کیجیے
جنوبی ہند سے ایک عالم ِ دین کا مکتوب موصول ہوا ہے، اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے: تمل ناڈو اور دوسرے علاقوں میں علمائے کرام مختلف اداروں، مثلاً مدرسہ یا مسجد، وغیرہ، سے منسلک ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ان کو ادارے کی انتظامیہ (management) سے کوئی شکایت ہوجاتی ہے ، اس وقت وہ منفی رویہ اپنا کر اس ادارے سے نکل کر کسی دوسرے ادارے میں چلے جاتے ہیں، یا ایک نیا ادارہ قائم کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پریشان بھی رہتے ہیں، اور ان کا علمی سفر بھی رک جاتا ہے۔ کیوں کہ ادارہ کی ذمے داریاں سنبھالنے میں ان کا وقت گذر جاتا ہے۔ان واقعات کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بات سمجھ میں آئی ہےکہ علما\ئے کو صرف خروج علی الحاکم کے مسائل معلوم ہیں، خروج علی مینجمنٹ کے مسائل ان کومعلوم نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خروج ہر جگہ غیر مطلوب ہے ، ا س کا انھیں علم نہیں ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ علماء اپنی علمی ذمے داریاں ادا کریں ،اور ادارے کی انتظامیہ، وغیرہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں تو معاملہ ٹھیک رہے گا۔ اس معاملے میں علماء کے لیےوہ حدیث رسو ل واحد راستہ ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں: أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی ان کو حق ان کادو، اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔ اگر اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے، تو باعتبارِ نتیجہ صرف فساد برپا ہوگا، شکایت کا ازالہ نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں محدثین ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی اور دینی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی، لیکن وقت کے حکام سے جو شکایت تھی، اس کو نظرانداز کیا۔ جس کی وجہ سے آج ہم ان کے علمی ذخیرے سے فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آج علماء کرام دلوں میں شکایت پالنے کی وجہ سےاپنے لیے مسائل میں اضافہ کرتے جارہے ہیں، مگر کوئی بڑا علمی ذخیرہ یا کارنامہ نہیں ادا کررہے ہیں۔ تقریباًہر عالم اپنی انتظامیہ اور متولیانِ مساجد کے خلاف شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے، یہاں تک کہ پوری زندگی شکایت کی نذرہوجاتی ہے ۔
آج علماء صرف جلسوں یا کانفرنسوں میں نظر آجاتے ہیں، مگر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو کو ئی علمی تحقیق یا علمی یاد گار نہیں دے پاتے۔ اس کےبغیر ہی وہ دنیا سےشاکی ہو کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ علماء اپنی اس سوچ کی اصلاح کریں، وہ اپنی لاعلمی کو جانیں۔ وہ ادارے کی انتظامیہ کی نیتوں پر حملے ترک کر یں ، اس کے بجائے ان کو چاہیےکہ جو مواقع ان کو حاصل ہیں ، ان پر وہ فوکس کریں، اور امت مسلمہ کو فائدہ پہنچائیں۔ (مولانا سیداقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
مکتوب نگار نے جو بات لکھی ہے، وہ بلاشبہ درست ہے۔ لیکن راقم الحروف کے نزدیک اس کا سبب ماضی کی تاریخ تک جاتا ہے۔ فقہائے متقدمین اس معاملے میں میرے نزدیک ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فقہائے متقدمین کے زمانے میں مسائل میں اختلافات پیدا ہوئے۔ اس وقت فقہائے متقدمین نے مسائل پر لامتناہی بحثیں چھیڑ دیں۔ یہ بلاشبہ ایک غلو تھا، جس کے نتیجے میں غیرضروری طور پر فقہی مسالک بنے، اور بڑھتے بڑھتے ان مسائل کی بنیاد پر مختلف قسم کے فقہی گروپ بن گئے۔ فقہ صرف ایک ہے، اور وہ وہی ہے، جو صحابہ کرام کے زمانے میں عملاً موجود تھی۔ بعد کے زمانے میں فقہی بنیاد پر مختلف گروہ بن گئے،مثلاًحنفی فقہ ،مالکی فقہ ، شافعی فقہ، حنبلی فقہ، جعفری فقہ، وغیرہ۔ وہ وہی چیز تھی، جس کو قرآن میں تفرق فی الدین (البقرۃ، 2:103)کہا گیا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشترک امور میں توحد کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور اختلافی امور میں توسع کا طریقہ۔
علمائے فقہ کو اس معاملے میں توسع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، جس کی طرف ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ (جلد 1، صفحہ 345)میں اشارہ کیا ہے۔ اس اختلافی مسائل میں غلو کے نتیجے میں ایک مبتدعانہ اصول پیدا ہوا، جس کو ترجیح کہتے ہیں۔ ترجیح کا طریقہ، جو علمائے فقہ کے درمیان رائج ہوا، وہ بلاشبہ ایک مبتدعانہ اصول تھا۔ صحیح اصول توسع ہے، نہ کہ ترجیح۔ عبادات میں اصل زور روح یعنی اسپرٹ پر دینا چاہیے، مگر ترجیح کی اس بحث نے یہ کیا کہ عبادات میں روحِ عبادت کا مسئلہ عملاً غیر اہم بن گیا، اور ساری بحث مسائل پر ہونے لگی۔ مسائل بالفاظ دیگر فارم پر ہونے لگی۔ اسی کا نتیجہ آخر کاروہ نکلا جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :مَسَاجِدُہُمْ عَامِرَةٌ وَہِیَ خَرَابٌ مِنَ الْہُدَى (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔ یعنی ان کی مسجدیں آباد ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔یہی معاملہ اداروں کے ذمہ داران سے اختلاف کا ہے۔ اگر اس قسم کے معاملے کا آپ تجزیہ کیجیے تو آپ پائیں گے کہ یہ سارے اختلافات فروعی چیزوں میں ہیں، نہ کہ اصولی چیزوں میں ۔ جب کہ اتحاد صرف اصولی مسائل میں ممکن ہے، فروعی مسائل میں ممکن ہی نہیں۔
اس معاملے پر شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسلام کے دورِ اول میں جب خروج علی الحاکم کا مسئلہ پیدا ہوا، تو علمائے اسلام نے اس پر کیا رویہ اختیار کیا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، اس پر علما کا یہ اجماع ہو گیا کہ حاکم کے خلاف خروج کرنا، جائز نہیں ہے۔ چنانچہ امام نووی نے لکھا ہے: وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَیْہِمْ وَقِتَالُہُمْ فَحَرَامٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ وَإِنْ کَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِینَ (شرح النووی علی صحیح مسلم، جلد نمبر12، صفحہ 229)۔ یعنی حاکم کے خلاف خروج کرنا، مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے، اگر چہ حاکم فاسق و ظالم ہو۔
ا س کا مطلب یہ ہوا کہ حاکم کے خلاف خروج نہ کرنا، مطلقاً مطلوب ہے۔ کوئی بھی عذر (excuse) اس معاملے میں خروج کو جائز نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خروج ایک اور چیز سے جڑا ہوا ہے، اور وہ ہے، استحکام (stability)۔ سماجی زندگی میں استحکام مطلق طور پر مطلوب ہے۔ کوئی بھی چیز جو استحکام کو نقصان پہنچائے، وہ بطورِ اصول قابلِ ترک ہے۔
قدیم زمانے میں یہ عمل سیاسی حاکم کے مقابلے میں اختیار کیا گیا تھا، موجودہ زمانے میں یہی اصول اس معاملے میں اپلائی ہوتا ہے، جب کہ ادارے کے ذمے دار کے خلاف خروج کا معاملہ ہو۔ کسی کے لیے یہ تو جائز ہے کہ وہ کسی عذر کو لے کر خاموشی کے ساتھ ادارے سے الگ ہوجائے۔ وہ الگ ہونے سے پہلے بھی اس معاملے میں خاموش رہے، اور ادارے سے الگ ہونے کے بعد بھی خاموش رہے۔ ادارے کے خلاف یا ادارے کے ذمے داران کے خلاف شکایتیں کرنا، اور منفی باتیں کرکے لوگوں کے اندر شکایتی ماحول پیدا کرنا، ہرگز جائز نہیں ہے۔