ارتداد کا مسئلہ
اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے— یہ ایک بے بنیاد مسئلہ ہے۔ کیوں کہ یہ حکم نہ قرآن سے ثابت ہے، اور نہ حدیث سے۔ البتہ فقہا نے بطور خود ایسے مسائل وضع کرلیے ہیں، جن میں سےکچھ یہ ہیں، شاتم کی سزا قتل، مرتد کی سزا قتل ،وغیرہ۔
اس قسم کے مسائل اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہیں۔ اسلام کے نزدیک ایسے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں، جو قانونی جبر کے تحت کسی نے اختیار کیا ہو۔ اسلام وہ ہے، جو قانونی جبر کے تحت نہیں، بلکہ آزادانہ طور پر اختیار کیا گیا ہو۔ اسلام کی اصل ذاتی دریافت ہے۔ ایمان وہ ہے جو سیلف ڈسکوری (self discovery) کی بنیاد پر کھڑا ہو۔
اسلام کے مطابق، جہاں کوئی شخص "شتم " یا "ارتداد " میں مبتلا پایا جائے، تو خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے، اس سے ڈسکشن کیا جائے۔ اگر اس کے اندر کچھ شک پیدا ہو ا ہے، تو اس کے شک کو علمی ڈسکشن کے ذریعے دور کیا جائے۔ اس کو ایک مجرم کی طرح نہ دیکھا جائے، بلکہ اس طرح دیکھا جائے، جس طرح کوئی ڈاکٹر مریض کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا مقصد لوگوں کو فتویٰ دے کر قتل کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کو خیر خواہی کے جذبے کے تحت اللہ کی رحمت کے سائے میں لانے کی کوشش کرنا ہے۔ اصل حقیقت کے اعتبار سے ایسے افراد کا کیس بے خبری (unawareness) کا کیس ہوتا ہے۔ داعی یا مصلح کا کام یہ ہے کہ اس کی بے خبری کو توڑا جائے، اس کی فطرت کو بیدار کیا جائے۔ اس کو اپنے خالق سے قریب ہونے کا موقع دیا جائے۔ یہ کوشش کی جائے کہ اس کے اندر توبہ کی نفسیات جاگے۔یہ کوشش کی جائے کہ وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ صراطِ مستقیم پر قائم ہوجائے۔ اسلام میں سماجی جرم (social crime) پر قتل کی سزا ہے، اسلام میں اعتقادی جرم (thought crime) پر قتل کی سزا نہیں۔