ائمۂ ہدایت
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ (32:24)۔ یعنی اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا۔ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
اس آیت میں سارا زور یقین پر ہے۔ یعنی جب کوئی امت اپنے فکری اور ذہنی ارتقا کے نتیجے میں اللہ کی رہنما ئی پر یقین کے درجے میں قائم ہوجاتی ہے، تو وہ اللہ کے نزدیک اس قابل ہوجاتی ہے کہ اس کو ہدایت کی ذمے داری عطا کی جائے۔ اس کو کلامِ الٰہی کی گہری سمجھ عطا کی جاتی ہے، اور اس کی یہ ذمے داری قرار پاتی ہے کہ وہ پوری امانت کے ساتھ اللہ کی ہدایت کو لوگوں تک پہنچائے۔ یہ ایک ذمے داری کا معاملہ ہے، وہ کوئی اعزاز کا معاملہ نہیں۔ اگر امت کے افراد یقین کی حالت پر نہ ہوں، تو وہ ذمے داری کے اس کام کو صحیح طور پر انجام دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس لیے اس ذمے داری کو ادا کرنے کی شرط یہ قرار پائی کہ امت کے لوگ جس ہدایت کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں، وہ خود اس کی صداقت پر یقین رکھتے ہوں۔
اسی بات کو قرآن میں دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (6:163)۔ یعنی میں پہلا مسلمان ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے— میں جس بات کی طرف تم کو بلا رہا ہوں، میں خود اس پر یقین کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہوں۔
اس ذمے داری کی ادائیگی میں صبر کا بنیادی رول ہے۔ کیوں کہ صبر کسی آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ ذمے داری کے اس کام میں لگ جائے۔ اس کام میں وہ کسی رکاوٹ کو رکاوٹ نہ بننے دے۔ صبر سے آدمی کے اندر مشن کے لیے استقامت آتی ہے، صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ خواہ اس کی ذمے داری اس کے لیے ایک مشکل ذمے داری ہو، پھر بھی وہ اس پر دلجمعی کے ساتھ قائم ہوجائے۔