حدیث کی تدوین
جیسا کہ معلوم ہے، حدیثیں رسول اللہ کے زمانے میں باقاعدہ طورپر جمع نہیں کی گئیں۔ جب کہ اسی زمانے میں قرآن کو باقاعدہ طورپر جمع کیا جارہا تھا۔ ایسا خود رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق ہوا۔آپ نے کہاتھا:لَا تَکْتُبُوا عَنِّی شَیْئًا غَیْرَ الْقُرْآن(مسند احمد، حدیث نمبر 11536)۔ یعنی مجھ سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔یہ ایک عجیب بات ہےکہ وہی پیغمبر جس نے قرآن کے بارے میں کہا: تَعَاہَدُوا القُرْآنَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5033)۔ یعنی قرآن کی نگہبانی کرتے رہو۔ اس پیغمبر نے حدیث کی حفاظت کی اتنی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
اِس پر کافی غور کرنے کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ یہ ایک خدائی منصوبہ بندی کا معاملہ تھا۔ کیوں کہ یہ بات طے شدہ تھی کہ لوگ ہر حال میں اقوالِ رسول کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں گے۔ قرآن کی حفاظت، کتابت کے ذریعہ ہوتی رہی، اور حدیث کی حفاظت حافظے کے ذریعہ۔ اِس فرق کا ایک بہت بڑا فائدہ تھا۔ اگر قرآن ہی کی طرح حدیث، آپ کی زندگی میں لکھ کر محفوظ ہوجاتی، تو بعد کی نسلوں کے لیے کوئی کام باقی نہ رہتا۔ حدیثوں کی جمع وتدوین کاکام زیادہ تر عباسی خلافت کے زمانے میں ہوا ہے۔ یعنی اُس زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بگاڑ آچکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ ہوتا کہ تمام لوگ سیاسی اصلاح کے نام پر حکمرانوں سے لڑنا شروع کردیتے۔ اِس طرح پوری امت، ابن زبیر او رمعاویہ جیسے لوگوں سے بھر جاتی۔ حدیث کا غیر مدوّن ہونا لوگوں کے لیے اِس بات کا ذریعہ بن گیا کہ وہ سیاسی بگاڑ کے اِشو کو نظر انداز کرکے حدیث رسول کی تدوین میں لگ جائیں۔
اِس طرح حدیث رسول کی تدوین کا کام بعد کے لوگوں کے لیے ایک چیک بن گیا، یعنی سیاسی بگاڑ یا حکمرانوں کے ساتھ لڑائی سے روکنے والا عمل۔ حدیث کےکام نے لوگوں کو ایک معلوم میدان دے دیا، جہاں وہ اپنی کوششوں کو صرف کریں۔ جو صلاحیتیں منفی جھگڑے میں ضائع ہوتیں، وہ صلاحیتیں مثبت کام میں مشغول ہوگئیں۔