ہر مذہب سچا ہے
ہر مذہب سچا ہے کا نظریہ بظاہر ایک خوبصورت نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ آدمی کو اسی چیز سے محروم کردیتا ہے، جو مذہب کی اصل ہے، یعنی یقین۔ ایسا آدمی بظاہر ہر مذہب کو یکساں درجہ دیتا ہے، لیکن یہ اس کے لیے لپ سروس (lip service) کی بات ہوتی ہے۔ یہ نظریہ مذہبی یقین کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دے دیتا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ میں بھی سچا، تم بھی سچے۔ یعنی کہنے کے لیے ہر مذہب کو سچا ماننا، لیکن گہرے یقین کے اعتبار سے کسی بھی مذہب پر یقین نہ ہونا۔
اصل یہ ہے کہ یہ معاملہ ایک مذہب یا تمام مذاہب کو ماننے کا نہیں ہے۔ بلکہ مذہب کو سچائی کا معاملہ سمجھنے کے بعد اس کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دینے کا ہے۔ یعنی مذہبی یقین کے بجائے سوشل مینرس (social manners) میں جینا۔ اس لیے اس معاملے میں صحیح فارمولا وہ ہے، جو باہمی احترام (mutual respect) پر قائم ہوتا ہے، نہ کہ باہمی اعتراف (mutual recognition) پر۔
دوسرے تمام معاملات میں زندگی کا نظام باہمی احترام کے نظریے پر چلتا ہے۔ یعنی کسی کا مذہب پوچھے بغیر اجتماعی زندگی میں اس کا احترام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اعتبار سے زندگی کا نظام انسان کے عمومی احترام پر قائم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سچائی کے اعتبار سے زندگی کا نظام تحقیق، اور ڈسکوری کے اوپر قائم ہوتا ہے۔ سچائی کے معاملے میں پہلے آپ متلاشی (seeker) بنتے ہیں، پھر آپ مطالعہ اور تحقیق کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کو سچائی کی دریافت ہوجاتی ہے۔ اس وقت آپ سچائی پر دل و جان سے قائم ہوجاتے ہیں۔ باہمی احترام کا فارمولا ایک ورکیبل فارمولا (workable formula) ہے، جو عملی ضرورت کی بنیاد پر بنتا ہے۔اس کے برعکس، سچائی کو ماننے کا فارمولا یقین (conviction) کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔