ذاتی معاملات

ذاتی معاملہ ہر آدمی کا اپنا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کو کوئی دوسرا شخص نہ سمجھ سکتا ہے، اور نہ اس کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکتا ہے۔ اپنے ذاتی معاملے میں آدمی کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے صوابدید کے مطابق فیصلہ کرے۔یہ طریقہ اصولی طور پر غلط ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ذاتی معاملے میں بہت زیادہ دخیل ہونے کی کوشش کرے، اور اس کے بارے میں اپنی رائے دینے میں شدت کا طریقہ اختیار کرے۔

فطرت کے اصول کے مطابق، کوئی آدمی اپنے ذاتی معاملے میں کسی دوسرے آدمی کی رائے کا پابند نہیں ہے۔ میری رائے اپنے لیے ہوسکتی ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ ہر آدمی اپنے ذاتی معاملے میں جو کچھ کرتا ہے، وہ اس کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ اصولی طور پر اس معاملے میں دوسروں کے لیے صرف یہ حق ہے کہ وہ آپ کے لیے دعا کرے۔ آپ کے لیے خیرخواہی کا طالب بنے۔ اس معاملے میں اگر کسی کو رائے دینے کا حق ہے، تو وہ آدمی کی اپنی فیملی ہے۔

مثلاً بچوں کی تعلیم، شادی بیاہ کا معاملہ، بزنس کا انتخاب، وغیرہ۔ زیادہ تر ذاتی دائرے کی چیزیں ہیں۔ ان معاملات میں فیملی کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ غیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی حد پر قائم رہے۔ کسی آدمی کے ذاتی معاملے میں زیادہ دخل نہ دے۔ اس حقیقت کو ایک عربی مثل میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:صاحب البیت ادرى بما فیہ ( گھر والا زیادہ جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے)۔

ضرورت سے زیادہ رائے دینا ایک غیر دانش مندانہ بات ہے۔ بہت سے معاملات جہاں لوگ رائے دینے لگتے ہیں، وہاں ان کو دعا کرنا چاہیے۔ دعا اگر سچی خیر خواہی کے ساتھ ہو، تو امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ، قبول ہوگی، اور آدمی کے لیے فائدہ کا سبب بنے گی۔ دعا خیر خواہی کا اعلیٰ طریقہ ہے۔دعا بلاشبہ مشورے کا ایک اعلیٰ بدل ہے۔ دعا گویا اپنی رائے کو اللہ کے ذریعے انسان تک پہنچانا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom