ہدایت کا قانون
قرآن میں انسانی غفلت کے حوالےسےایک اصول ان دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ ۔ وَأُمْلِی لَہُمْ إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ (7:182-83)۔ یعنی اور جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔ اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں، بیشک میرا داؤ بڑا مضبوط ہے۔
تکذیبِ آیات (نشانیوں کو جھٹلانا) کا مطلب کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کائنات کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ قرآنی حقیقتوں کی تصدیق بن گئی ہے۔انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کائنات کی نشانیوں میں اس تصدیق کو پڑھے، اور ان کا اعتراف کرے، مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا نظام بتاتا ہے کہ اس کا کنٹرول ایک عظیم خالق کے ہاتھ میں ہے۔ سورج کا ہردن نہایت وقت پر نکلنا، اور پھر نہایت متعین وقت پر اس کا ڈوبنا، اس بات کی گواہی ہے کہ سورج کا نظام ایک عظیم خالق کے کنٹرول میں ہے۔ اس طرح کی بے شمار نشانیاں کائنات میں ہیں۔ جو لوگ ان نشانیوں سے سبق لے کر خالق کو دریافت کریں، انھوں نے سچائی کو جان لیا، اور جو لوگ ان نشانیوں کو نظر انداز کریں، انھوں نے عملاً ان کو جھٹلایا۔ ایسے لوگ خالق کی پکڑ میں آجائیں گے۔
تکذیب کا عمل زیادہ تر لاشعور کے تحت ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کو دھیرے دھیرے پکڑنے کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس نظام کو جانے، اور زیادہ ہوش مندی کے ساتھ اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر انسان زیادہ ہوش مندی کے ساتھ چیزوں کو دیکھے گا، تو وہ فطرت کے نظام سے با خبر ہوجائے گا، اور اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، جو لوگ غفلت کی زندگی گزاریں، جو دنیا کی دلچسپیوں میں اتنا مشغول ہوجائیں کہ اپنی آخرت کو بھلادیں، ایسے لوگ تخلیقی نظام کی پکڑ میں آجائیں گے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس غلطی سے اپنے آپ کو بچائے۔ انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ٖوہ غفلت کی زندگی گزارے۔