اصلاحی سیاست
تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے بھی سیاست کی اصلاح کے نام پر تحریک چلائی، ان کی سیاست ہمیشہ تخریبی سیاست ثا بت ہوئی۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ سیاسی اصلاح کا مروجہ طریقہ درست طریقہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اصلاح کے طریقے میں ہمیشہ ایک فریقِ ثانی موجود رہتا ہے۔ ہر سیاسی اصلاح کا طریقہ فریقِ ثانی کو اپنے سیاسی مفاد کے خلاف نظر آتا ہے۔ اس لیے اول دن ہی سے وہ اس اصلاحی سیاست کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔
یہ حل وہی ہے ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں اختیار کیا تھا۔ آپ کی اہلیہ عائشہ آپ کی پالیسی کو ان الفاظ میں بتاتی ہیں:مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَہُمَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3560)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملات کے درمیان اختیار دیا گیا، آپ نے ان دونوںمیں سے آسان تر کو اختیار کیا۔ یہ طریقِ عمل ہر تحریک کے لیے یکسا ں طور پر چسپاں ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جب بھی کوئی تحریک چلائی جائے، تو اس کے چلانے والوں کو نہایت شدت کے ساتھ یہ اصول اپنانا چاہیے کہ ان کی تحریک مکمل طور پر امن کے اصول پر قائم رہے۔
اس قسم کی تحریک کے دوران اگر کوئی ایسا مرحلہ آئے، جب کہ تحریک کو چلانے کی صورت میں اربابِ سیاست سے ٹکراؤ پیش آنے والا ہو، تو وہاں مصلحین کو چاہیے کہ وہ پریکٹکل وزڈم کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ یک طرفہ طور پر غیرنزاعی انداز میں اپنی تحریک کو چلائیں، کسی حال میں بھی وہ اپنی تحریک کو نزاع اور ٹکراؤ کے راستے پر نہ لے جائیں۔ اربابِ سیاست سے نزاعی طریقہ اختیار کرنا، ہمیشہ نقصان کا سبب بنتا ہے۔ کیوں کہ اس قسم کا ٹکراؤ عملاً دو غیر مساوی گروہوں کے درمیان ٹکراؤ بن جاتا ہے۔ اہل اقتدار کے پاس طاقت ہوتی ہے، اور مصلحین کے پاس طاقت موجود نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عملا ً گریٹر ایول (greater evil) کے انجام تک پہنچ جاتا ہے۔