حکمتِ رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت معلمِ دین کی ہے، یعنی دینِ خداوندی کی تعلیمات سے انسان کو باخبر کرنا۔ اس سلسلے میں قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— کتاب اور حکمت۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ یعنی وہ سب جو پیغمبر اسلام پر بذریعہ وحی اترا ہو، اور وہ محفوظ طور پر مابین الدفتین، ہمارے پاس موجود ہو۔اس مجموعے کو قرآن بھی کہا جاتا ہے، اور کتاب اللہ بھی۔ اس کتاب کا متن عربی زبان میں محفوظ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو تعلیم قرآن میں لفظاً موجود نہ ہو، اس کے بارے میں کیا اصول ہے۔ انھیں دوسری تعلیمات کو حکمت کہا گیا ہے۔ حکمت سے مراد وہی چیزہے، جس کو انگریزی زبان میں وزڈم (wisdom) کہتے ہیں۔یہ حکمت قرآن کی ملفوظ تعلیمات کے علاوہ ہے۔ یہ قول کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں، اور عمل کی صورت میں بھی، اور اُس صورت میں بھی جس کو محدثین کی اصطلاح میں تقریر کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ کی تعلیمات کا یہی وہ حصہ ہے، جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔
مثال کے طور پر رسول اللہ کا مشن توحید کا مشن تھا، یعنی انسان اللہ کو ایک مانے، اور اس کا عبادت گزار بنے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب رسول اللہ کی بعثت ہوئی، اس وقت کعبہ کی عمارت میں تقریباً تین سو ساٹھ بت موجود تھے۔ رسول اللہ وہاں جاتے، اور لوگوں سے کہتے کہ ایک اللہ کو مانو، اور اسی کی عبادت کرو۔ لیکن سیرت کی کتابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے وہاں جاکر یہ کہا ہوکہ کعبہ کے معمار پیغمبر ابراہیم نے کعبہ کو ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنایا تھا۔ تم کعبہ کی عمارت سے بتوں کو ہٹاؤ، اور اس کو صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے خالص کرو۔
اب یہ سوال ہے کہ رسول اللہ کا یہ عمل قرآن میں کہاں مذکور ہے۔ یہ تعلیم رسول اللہ کے عمل سے نکلتی ہے، نہ کہ قرآن کے الفاظ سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ جو رسول اللہ نے اختیار کیا، وہ ایک مستنبط طریقہ تھا۔ اسی مستنبط طریقے کا نام حکمت ہے،یعنی بذریعہ استنباط (inference) دریافت کیا ہوا طریقہ۔
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ پیغمبرِ اسلام نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ (delinking) کا طریقہ اختیار کیا، یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ آپ نے دیکھا کہ قدیم مکہ کے لوگوں نے کعبہ کی عمارت میں بت رکھ دیے ہیں، وہاں وہ روزانہ جمع ہوتے ہیں، اور اپنے عقیدے کے مطابق بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کعبہ میں بیک وقت دو مظاہر موجود تھے۔ ایک، کعبہ کی عمارت میں بتوں کی موجودگی، اور دوسرا، ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ اہل شرک کا اکٹھا ہونا۔
آپ نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کی۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی، اور ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس عرب قبائل کا اکٹھا ہونا۔ آپ نے ایک کو دوسرے سے الگ کردیا۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر اندازکیا، اور عرب قبائل کے اجتماع کو اپنے آڈینس کے طور پر استعمال کیا۔
ڈی لنکنگ کا یہ طریقہ جو آپ نے اختیار کیا، وہ لفظی حکم کے طو رپر قرآن میں موجود نہ تھا۔ یہ ایک استنباطی حکمت تھی، جو آپ نے دعوت کے لیے استعمال کی۔ اس استنباطی حکمت کے لیے دوسرا لفظ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی آیت میں کتاب سے مراد قرآن ہے، اور حکمت سے مراد پریکٹکل وزڈم ہے۔
پریکٹکل وزڈم، یعنی ایک طریقے کو عمل کی بنیاد پر اختیار کرنا، جب کہ نظریے کی بنیاد پر وہ طریقہ متن میں موجود نہ ہو۔ موجودہ زمانےمیں حدیث اور سنت کا چرچا بہت زیادہ کیا گیا ہے، لیکن مذکورہ طریقہ جوبلاشبہ ایک سنت رسول ہے،اس کا کوئی چرچا نہیں۔ اس سنت کی بنیاد پر مسلمانوں میں اب تک کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ یہ ایک ایسی سنت رسول ہے، جو عملاً مسلمانوں میں متروک بنی ہوئی ہے۔ موجودہ زمانے کا اصل کام یہ ہے کہ اس متروک سنت کو زندہ کیا جائے۔ اس متروک سنت کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے۔