عقل کی بات
قدیم مثل ہے، بٗوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے۔ موجودہ زمانے میں مسلم ایکٹوسٹ (Muslim activist) لوگوں نے بار بار یہی غلطی کی ہے۔ وہ اجتماعی معاملات میں بار بار کسی طاقت سے الجھ گئے، اور پھر جب ناکامی سے دوچار ہوئے تو وہ کہنے لگے کہ ایسا مخالفین کی سازش کی وجہ سے ہوا۔ یہ بالکل خلاف واقعہ بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنی اس غلطی کا شکار ہوئے کہ وہ بوجھے بغیر باجھ گئے، یعنی سوچے سمجھے بغیر اپنے آپ کو ایسے معاملات میں الجھا لیا، جس سے نپٹنے کی طاقت ان کے اندر نہ تھی۔
منصوبہ بندی اگر ٹکراؤ پرمبنی ہو، تو وہ نتیجہ خیز (result-oriented) منصوبہ بندی نہیں۔ کیوں کہ ایسی منصوبہ بندی میں بے فائدہ ٹکراؤ زیادہ ہوتا ہے، اور مطلوب نتیجہ بہت کم ۔ مطلوب نتیجہ جس میں ملحوظ رکھا گیاہو، وہ نتیجہ خیز منصوبہ بندی ہے، اور جو عملاً ردعمل (reaction) پر مبنی ہو، وہ حقیقی معنوں میں منصوبہ بندی نہیں۔ ایسی منصوبہ بندی رد عمل ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں عمل۔
بوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے کا مثل قدیم زمانے کے تجربات (experiences )پر قائم ہے۔ آج کی زبان میں اس کو کہنا ہو تو یہ کہیں گے کہ اقدام ہمیشہ منصوبہ بند اقدام ہونا چاہیے، نہ کہ بغیر منصوبہ کا اقدام۔ منصوبہ بند اقدام کیا ہے۔ وہ ہے اقدام سے پہلے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوچنا۔ ہر پہلو سے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت ،صورتِ حال کا جائزہ لینا، اور پھر غیر جذباتی انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔
منصوبہ بند اقدام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بطور ری ایکشن نہ ہو، بلکہ ری ایکشن کے بغیربے لاگ انداز میں سوچ کر بنایا گیا ہو۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو حقیقی حالات کی روشنی میں بنایا جائے، نہ کہ جذباتی رد عمل کے اثر سے۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو پریکٹکل وزڈم پر مبنی اقدام ہو۔ منصوبہ بند اقدام مبنی بر حقیقت اقدام کا دوسرانام ہے۔