آپ مشتعل نہیں ہوئے
6 ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں خواب دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کر رہے ہیں۔ صحابہ کو آپ نے یہ خواب بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے کہ چھ سال کے بعد اب مکہ جانے اور حرم کی زیارت کرنے کا موقع ملے گا ۔ اس خواب کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ چودہ سو اصحاب بھی آپ کے ساتھ ہو گئے۔ غدیر اشطاط کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ قریش آپ کے سفر کی خبر پا کر سر گرم ہو گئے ہیں ۔ انھوں نے ایک لشکر جمع کیا ہے اور عہد کیا ہے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔
کعبہ کی زیارت سے کسی کو روکنا عرب روایات کے بالکل خلاف تھا۔ مزید یہ کہ آپ اشارۂ خدا وندی کے تحت یہ سفر کر رہے تھے ۔ مگر اس کے باوجود آپ اس خبر کو سن کر مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ کے جاسوس نے بتایا کہ خالد بن ولید دو سو سواروں کو لے کر مقام غمیم تک پہنچ گئے ہیں تاکہ آپ کا راستہ روکیں۔ یہ خبر سن کر آپ نے یہ کیا کہ معروف راستہ کو چھوڑ دیا اور ایک غیر معروف اور دشوار گزار راستہ سے چل کر حدیبیہ تک پہنچ گئے تاکہ خالد سے ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے ۔ اس واقعہ کو ابن ہشام نے جن الفاظ میں نقل کیا ہے وہ یہ ہیں:
قَالَمَنْ رَجُلٌ يَخْرَجُ بِنَا عَلَى طَرِيقٍ غَيْرِ طَرِيقِهِمْ الَّتِي هُمْ بِهَا؟ قَالَ رَجُل أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَفَسَلَكَ بِهِمْ طَرِيقًا وَعْرًا أَجْرَلَ بَيْنَ شِعَابٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنْهُ، وَقَدْ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَأَفْضَوْا إلَى أَرْضٍ سَهْلَةٍ عِنْدَ مُنْقَطِعِ الْوَادِي، قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم لِلنَّاسِقُولُوا نَسْتَغْفِرُ اللهَ وَنَتُوبُ إلَيْهِ. فَقَالُوا ذَلِكَ، فَقَالَوَاَللهِ إنَّهَا لَلْحِطَّةُ الَّتِي عُرِضَتْ عَلَى بَنِي إسْرَائِيلَ. فَلَمْ يَقُولُوهَا (سيرت ابن هشام، جلد 2،صفحہ309-310)۔ یعنی، رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے کہا کون شخص ہے جو ہم کو ایسے راستہ سے لے جائے جو ان کے راستہ سے مختلف ہو ۔ ایک شخص نے کہا کہ میں اے اللہ کے رسول ۔ چنانچہ وہ لوگوں کو لے کر ایسے راستہ پر چلا جو سخت دشوار اور پتھر یلا تھا اور پہاڑی راستوں سے گزرتا تھا۔ جب لوگ اس راستہ کو طے کر چکے اور مسلمانوں کو اس پر چلنا بہت شاق گزرا تھا اور وہ وادی کے ختم پر ایک ہموار زمین میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ کہو ہم اللہ سے مغفرت مانگتے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لوگوں نے اسی طرح کہا۔ آپ نے فرمایا خدا کی قسم یہی حِطّہ ہے جو بنی اسرائیل کو پیش کیا گیا تھا۔ مگر انھوں نے نہیں کہا۔
حطہ کا مطلب تو بہ اور بخشش ہے ۔ اس صبر آزما موقع پر تو بہ واستغفار کرانا ظاہر کرتا ہے کہ خدا کے بتائے ہوئے صابرانہ طریق کار کا آدمی کو اس قدر زیادہ پابند ہونا چاہیے کہ اس راہ پر چلتے ہوئے جو کمزوری یا جھنجھلاہٹ پیدا ہو اس کو بھی آدمی گناہ سمجھے اور اس کے لیے خدا سے معافی مانگے۔ اس کو خدا کے طریقہ پر راضی رہنا چاہیے، نہ کہ وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر خود ساختہ طریقے نکالنے لگے۔
حدیبیہ کا مقام مکّہ سے 9 میل کے فاصلہ پر ہے ۔ یہاں آپ ٹھہر گئے تاکہ حالات کا جائزہ لے سکیں ۔ حدیبیہ سے آپ نے خراش بن امیہ خزاعی کو ایک اونٹ پر سوار کر کے اہل مکہ کے پاس بھیجا کہ ان کو خبر کر دیں کہ ہم صرف بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں، جنگ کے لیے نہیں آئے ہیں۔ جب وہ مکہ پہنچے تو اہل مکہ نے ان کے اونٹ کو ذبح کر ڈالا اور خود حضرت خراش کو بھی قتل کرنے کے لیے دوڑے۔ مگر وہ کسی طرح بچ کر واپس آگئے۔ پھر آپ نے حضرت عثمان کو یہ پیغام لے کر مکّہ بھیجا کہ تم لوگ مزاحمت نہ کرو، ہم عمرہ کے مراسم ادا کر کے خاموشی سے واپس چلے جائیں گے ۔ اہل مکہ نے حضرت عثمان کو بھی روک لیا۔ پھر مکرزبن حفص پچاس آدمیوں کو لے کر رات کے وقت حدیبیہ پہنچا اور مسلمانوں کے پڑاؤ پر تیر اور پتھر برسانے لگا۔ مکرز کو گرفتار کر لیا گیا۔ مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کو بلا شرط چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح مقام تنعیم کی طرف سے 80 آدمی صبح سویرے آئے اور عین نماز کے وقت مسلمانوں پر چھاپہ مارا۔ یہ لوگ بھی پکڑ لیے گئے ۔ مگر آپ نے ان کو بھی غیرمشروط طور پر رہا کر دیا ۔
اس کے بعد قریش سے طویل مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوئی۔ مگر یہ صلح ظاہر بینوں کے لیے سراسر قریش کی فتح اور مسلمانوں کی شکست کے ہم معنی تھی مسلمان یہ سمجھے ہوئے تھے کہ وہ بشارت الٰہی کے تحت عمرہ کرنے کے لیے مکہ جارہے ہیں، مگر جو صلح ہوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط پر راضی ہو گئے کہ وہ عمرہ کیےبغیر حدیبیہ سے واپس چلے جائیں۔ اگلے سال وہ عمرہ کے لیے آئیں مگر صرف تین دن مکہ میں ٹھہریں اور اس کے بعد خاموشی سے واپس چلے جائیں۔ اس طرح کی ذلت آمیز دفعات مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے بالکل کافی تھیں ۔ مگر آپ نے بظاہر شکست کے باوجود تمام دفعات کو منظور کر لیا ۔
قریش نے اس موقع پر آپ کے ساتھ جو کچھ کیا آپ کو اشتعال دلانے کے لیے کیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح آپ کو مشتعل کر کے آپ کی طرف سے کوئی جارحانہ اقدام کرا دیں تاکہ قریش کے لیے آپ سے لڑنے کا جواز نکل آئے ۔ حرم کی زیارت سے روکنا یوں بھی عرب روایات کے خلاف تھا۔ مزید یہ کہ یہ ذو قعدہ کا مہینہ تھا جو عربوں میں حرام مہینہ شمار ہوتا تھا۔ اس میں جنگ ناجائز سمجھی جاتی تھی۔ اس لیے اہل مکہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے اوپر جارحیت کی ذمہ داری ڈال کر ان سے جنگ کی جائے۔ مسلمان اس وقت کم تعداد میں تھے ۔ ان کے پاس سامان جنگ نہیں تھا۔ وہ مرکز مدینہ سے ڈھائی سو میل دور اور دشمن کے مرکز (مکہ) کی عین سرحد پر تھے۔ قریش کے لیے بہترین موقع تھا کہ آپ کے اوپر بھر پور وار کر کے آپ کے خلاف اپنے دشمنانہ حوصلوں کو پورا کر سکیں۔ اسی لیے انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح آپ مشتعل ہو کر لڑ پڑیں۔ مگر رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شرارت کو نظر انداز کرتے رہے اور کسی طرح اشتعال کی نوبت نہ آنے دی۔
یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ حضرت ابوبکر کے سو اصحابہ کرام میں سے کوئی شخص نہ تھا جو یہ محسوس نہ کر رہا ہو کہ ہم ظالم کے آگے جھک گئے ہیں اور اپنے کو توہین آمیز شرائط پر راضی کر لیا ہے ۔ قرآن میں جب اس معاہدہ کےبارے میں آیت اتری کہ یہ فتح مبین ہے تو صحابہ نے کہا کیا یہ فتح ہے۔ ایک مسلمان نے کہا کیسی فتح ہے کہ ہم بیت اللہ جانے سے روک دیے گئے۔ ہماری قربانی کے اونٹ آگے نہ جا سکے ۔ خدا کے رسولؐ کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا ۔ ہمارے مظلوم بھائی (ابو جندل اور ابو بصیر )کو اس صلح کے تحت ظالموں کے حوالے کر دیا گیا،وغیرہ ۔ مگر اسی ذلت آمیز صلح کے ذریعہ خدا نے فتح عظیم کا دروازہ کھول دیا ۔
یہ معاہدہ بظا ہر دشمن کے آگے جھک جانا تھا۔ مگر حقیقۃً وہ اپنے کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا وقفہ حاصل کرنا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے تمام مطالبات منظور کر کے ان سے صرف ایک یقین دہانی لے لی۔ یہ کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہوگی۔ اب تک یہ تھا کہ مسلسل حالت جنگ کی وجہ سے تبلیغ و تعمیر کا کام رکا ہوا تھا ۔ آپ نے حدیبیہ سے لوٹ کر فور اًدعوت و تبلیغ کا کام عرب اور اطراف عرب میں تیزی سے شروع کر دیا۔ ابتدائی زمین پہلے تیار ہو چکی تھی۔ پرامن حالات نے جو موقع دیا اس میں دعوت کا کام تیزی سے پھیلنے لگا ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام قبول کرنے لگے ۔ عرب قبائل ایک کے بعد ایک اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ عرب کے باہر ملکوں میں اسلام کی دعوت پھیلائی جانے لگی۔ مشرکین مکہ کی طرف سے مامون ہو کر آپ نے خیبر کے یہودیوں کے خلاف کاروائی کی اور ان کا خاتمہ کر دیا ۔ دعوتی سرگرمیوں کے ساتھ داخلی استحکام اور تیاری کا کام بہت بڑے پیمانہ پر ہونے لگا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ صلح کے صرف دو سال بعد اسلام اتنا طاقت ور ہو گیا کہ قریش نے لڑے بھڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ جس مکہ سے توہین آمیز واپسی پراپنے کو راضی کر لیا گیا تھا اسی مکہ میں اس واپسی سے فاتحانہ داخلہ کا راستہ نکل آیا ۔
آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ حریف کی طرف سے کوئی ناخوش گوار بات پیش آئے تو فوراً بپھر اٹھتے ہیں اور اس سے لڑجاتے ہیں۔ اور جب بے فائدہ لڑائی کے نقصانات بتائے جائیں تو کہتے ہیں کہ ہم خود سے نہیں لڑے۔ ہمارے خلاف سازش کر کے ہم کو جنگ میں الجھایاگیا۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ نہ لڑنا حقیقتاً اس کا نام ہے کہ کوئی لڑنے نہ آئے تو آپ نہ لڑیں ۔ نہ لڑنا یہ ہے کہ لوگ لڑنے آئیں پھر بھی آپ ان سے نہ لڑیں ۔ لوگ آپ کو اشتعال دلائیں مگر آپ مشتعل نہ ہوں۔ لوگ آپ کے خلاف سازشیں کریں مگر اپنی خاموش تدبیروں سے آپ ان کی سازش کو ناکام بنا دیں۔ لوگ آپ کے خلاف اپنے دلوں میں دشمنی لیے ہوئے ہوں تب بھی آپ ان کی دشمنی کو عمل میں آنے نہ دیں ۔
زندگی کا اصل راز حریف سے لڑنا نہیں ہے۔ زندگی کا راز یہ ہے کہ لڑائی سے بچ کر اپنے آپ کو اتنا طاقت ور بنایا جائے کہ لڑائی کے بغیر محض دبدبہ سے حریف ہتھیار ڈال دے۔ جو لوگ مشتعل ہو کر لڑنا جانیں اور خاموش ہو کر تیاری کرنا نہ جانیں ان کے لیے یہاں صرف بر بادی کا انجام ہے۔ نا ممکن ہے کہ خدا کی دنیا میں وہ کامیاب ہو سکیں۔ کیسی عجیب بات ہے، جو کامیابی پیغمبرؐنے نہ ٹکرانے کی پالیسی اختیار کر کے حاصل کی اس کو ہم ٹکرانے کا طریقہ اختیار کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر بھی ہما را یقین ہے کہ ہم رسول خدا ؐکے امتی ہیں اور آپ ضرور خدا کے یہاں ہماری شفاعت فرمائیں گے۔