حِلف الفضول

زمانہ جاہلیت میں عرب کے کچھ لوگوں نے ایک باہمی معاہدہ کیا تھا جس کو حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور ظلم کو روکنا تھا۔ اس معاہدہ میں شریک ہونے والوں کے نام تھے فضل بن فضالہ فضل بن ودداعہ اور فضیل بن حارث۔ چنانچہ انھیں کے نام پر اس معاہدہ کا نام حلف الفضول (فضل والوں کا معاہدہ) پڑ گیا۔ یہ معاہدہ ابتدائی بانیوں تک زندہ رہا۔ ان کے مرنے کے بعد صرف ان کا نام رہ گیا۔ زبیر بن عبدالمطلب نے اپنے بعض اشعار میں اس معاہدہ کا ذکر اس طرح کیا ہے

 ‌إنّ ‌الْفُضُولَ تَحَالَفُوا، وَتَعَاقَدُوا                      أَلّا يُقِيمَ بِبَطْنِ مَكّةَ ظَالِمُ

أَمْرٌ عَلَيْهِ تَعَاهَدُوا، وَتَوَاثَقُوا                              فَالْجَارُ وَالْمُعَتّرُ فِيهِمْ سَالِمُ

فضل نامی افراد نے باہم معاہدہ کیا اور عہد باندھا کہ مکہ میں کوئی ظالم نہ رہنے پائے گا۔ انھوں نے اس بات پر باہم عہد باندھا اور اقرار کیا۔ پس مکّہ میں پڑوسی اور ضرورت سے آنے والا سب محفوظ ہیں (روض الانف از سہیلی، جلد2، صفحہ47) ۔

 واقعہ فیل کے بعد عرب میں ایک باہمی جنگ ہوئی جس کو حرب الفجار( حرام مہینوں میں کی جانے والی جنگ) کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد دوبارہ عرب میں بدامنی بڑھ گئی۔ اسی زمانہ میں یہ واقعہ ہوا کہ یمن کے قبیلہ زید کا ایک شخص کچھ تجارتی سامان لے کر مکہ آیا ۔ قریش کے ایک سردار عاص بن وائل سہمی نے اس کا سامان خرید امگر اس کی مطلوبہ قیمت نہیں ادا کی۔ مذکورہ یمنی تاجر نے مکہ والوں سے فریاد کی۔ اس نے کچھ اشعار کہے اور ان کے ذریعہ عام لوگوں تک اپنی شکایت پہنچائی۔ اس واقعہ نے مکہ کے کچھ درد مند لوگوں کو چوکنا کر دیا۔ زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک پر بنو ہاشم اور بنو تمیم کے لوگ عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے تاکہ صورت حال کے بارے میں مشورہ کریں۔ انھوں نے حلف الفضول کی از سر نو تجدید کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے باہمی عہد کے ذریعہ  اپنے کو پابند کیا کہ وہ مظلوم کا ساتھ دیں گے اور ظالم سے اس کا حق دلا کر رہیں گے — تَعَاقَدُوا بِاللهِ لیکونن مَعَ الْمَظْلُومِ حَتَّى يُؤْدَىٰ إِلَيْهِ حَقُّهُ (طبقات ابن سعد، جلد1، صفحہ123)۔ اس عہد کے بعد وہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے۔ اس سے مذکورہ شخص کا سامان چھینا اور اس کو اس کے مالک کے حوالے کیا۔

یہ معاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی عمرمیں ہوا تھا۔ وہ اگر چہ عربوں کا ایک معاہدہ تھا مگر آپ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ اس کی بابت آپ کے یہ الفاظ سیرت کی کتابوں میں نقل کیےگئے ہیں :

لَقَدْ ‌شَهِدْتُ ‌فِي ‌دَارِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا لَوْ دُعِيتُ بِهِ فِي الْإِسْلَامِ لَأَجَبْتُ، تَحَالَفُوا أَنْ يَرُدُّوا الْفُضُولَ عَلَى أَهْلِهَا وَأَلَّا يَعُزَّ  ظَالِمٌ مَظْلُومًا (سیرت ابن کثیر،جلد1،صفحہ258)۔یعنی، میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ہونے والے معاہدہ میں شریک تھا۔ اگر اسلام کے بعد بھی مجھے اس میں بلایا جاتا تو میں ضرور اس میں شریک ہوتا۔ انھوں نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ حقدار تک اس کا حق پہنچا ئیں گے اور یہ کہ کوئی ظالم کسی مظلوم پر غالب نہ آسکے گا۔

ابن ہشام نے اس ذیل میں بعض واقعات نقل کیےہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حلف الفضول کا ذہنی اثر بعد کے عربوں میں بھی باقی تھا۔ ولید بن عتبہحضرت معاویہ بن ابی سفیان کے بھتیجے تھے ۔ حضرت معاویہ نے ان کو مدینہ کا امیر بنایا تھا۔ اسی زمانہ میں ولید بن عتبہاور حضرت حسین بن علی کے درمیان ایک جائداد کا جھگڑا ہوا جو کہ ذو المروہ نامی گاؤں میں تھی ۔ ولید نے طاقت کے زور پر اس پر قبضہ کرنا چاہا۔ حضرت حسین نے فرمایا

أَحْلِفُ بِاَللهِ لَتُنْصِفَنِّي مِنْ حَقِّي، أَوْ لَآخُذَنَّ سَيْفِي، ثُمَّ لَأَقُومَنَّ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ لأدعونَّ ‌بِحِلْفِ ‌الفُضول (سيرت ابن هشام،جلد1،صفحہ124)۔میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم کو میرے حق کے معاملہ میں انصاف کرنا ہوگا ور نہ میں اپنی تلوار لوں گا اور مسجد نبویؐ میں کھڑا ہو جاؤں گا اور حلف الفضول کے نام پر پکاروں گا ۔

عبید اللہ بن زبیر جو اس وقت وہاں موجود تھے انھوں نے بھی یہی بات کہی ۔ انھوں نے کہا میں بھی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر حسین اس کے لیے پکاریں گے تو میں اپنی تلوار لوں گا اور ان کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا یہاں تک کہ ان کا حق ان کو دیا جائے یا ہم دونوں ایک ساتھ قتل ہو جائیں۔ یہ بات مسور بن مخرمہ زہری کو پہنچی تو انھوں نے بھی اسی طرح کہا ۔ اسی طرح یہ بات عبدالرحمن بن عثمان تیمی کو پہنچی تو انھوں نے بھی ایسا ہی کہا۔ جب ولید بن عتبہکو اس کا علم ہوا تو اس نے حضرت حسین کو ان کا حق ادا کر دیا (سیرت ابن ہشام،جلد 1 ،صفحہ 146)۔

اوپر کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ بدامنی اور فساد کے مسئلہ کے حل کے لیے اسلام کا مصدقہ طریقہ حلف الفضول کا طریقہ ہے۔ یعنی معاشرہ کے ذمہ دار افراد کا خدا کے سامنے عہد باندھ کر اپنے آپ کو اس کا پابند کرنا کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہو گا کہ ایک شخص دوسرے شخص پرظلم کر رہا ہو تووہ فوراً دوڑ کر موقع پر پہنچیں گے۔ مظلوم کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ بنائیں گے۔ وہ اپنی ساری قوت اور ساری کوشش صرف کر کے ظالم کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آئے اور مظلوم کو اس کا حق ادا کرے ۔

آج ہر بستی میں یہ صورت حال ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ستاتا ہے۔ کوئی کسی کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے، کوئی کسی کے اوپر جھوٹا مقدمہ قائم کیےہوئے ہے۔ کوئی کسی کا مال ہڑپ کر لینا چاہتا ہے۔ غرض جس کو ذرا بھی کوئی طاقت یا موقع ہاتھ آتا ہے تو وہ اس کوشش میں لگ جاتا ہے کہ کمزور کو دبائے اور ظالمانہ طریقہ پر دوسرے کے حقوق کو غصب کرے۔ اس قسم کے واقعات ہر بستی میں اور ہر محلہ میں ہو رہے ہیں۔ مگر تمام لوگ غیرجانب دار بنے رہتے ہیں حتٰی کہ ذمہ دار افراد بھی ان معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتے۔ کسی کو اگر اصلاح امت یا خدمت قوم کا شوق ہوتا ہے تو وہ جلسوں اور تقریروں کا مشغلہ شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ اصل کام مظلوموں کی عملی دادرسی ہے، نہ کہ مظلوموں کے نام پر جلسہ کرنا اور اس میں الفاظ کے دریا بہانا۔ مظلوموں کے نام پر جلسے کرنا ایساہی ہے، جیسے کوئی شخص زخمی ہو جائے اور آپ اس کو اسپتال لے جانے کے بجائے ایک شان دار زخمی کا نفرنس منعقد کرنے کے لیے دوڑ پڑیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom