جب لوگ پکار پر دوڑ پڑتے تھے

اسلام سے پہلے عرب میں جو شعراء پیدا ہوئے ان کو جاہلی شعراء کہا جاتا ہے۔ ایک جاہلی شاعر اس زمانہ کے ایک عرب قبیلہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :

لَا يَسْأَلُونَ أَخَاهُمْ حِينَ يَنْدُبُهُمْ         في النَّائِبَاتِ عَلَى مَا قَالَ بُرْهَانًا

یعنی ان کے بھائی پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے اور وہ ان کو مدد کے لیے پکارتا ہے تو وہ اس سے اس کی دلیل نہیں پوچھتے ۔ بلکہ فوراً اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑتے ہیں (عيون الأخبار،جلد1،صفحہ،285)۔ زمانہ جاہلیت کے عرب میں اس کو شرافت کی خاص پہچان سمجھا جاتا تھا۔ اسی زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص سے کچھ لوگوں کی دشمنی ہوگئی۔ ایک روز ان لوگوں نے اس شخص کو اکیلے میں پالیا۔ وہ لوگ دوڑے کہ اس کو مار ڈالیں ۔ وہ آدمی بھاگا۔ بھاگتے ہوئے اس کو ایک بدو کا خیمہ ملا۔ وہ خیمہ میں گھس گیا اور کہا کہ مجھے بچاؤ ۔ بدو عرب نے اس کو خیمہ کے اندر بٹھایا اور خود خیمہ کے دروازے پر تلوار لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے دشمن جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا میں نے اس آدمی کو پناہ دی ہے ، اب اگر تم اس کو پکڑنا چاہتے ہو تو پہلے تم کو میری تلوار کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مجھ کو ختم کرنے کے بعد ہی تم اس کو پا سکتے ہو۔

عباسی خلافت کے زمانہ میں ایک شخص نے بغاوت کی ۔ اس کا نام بابک خرمی تھا۔ اس نے موصل کے علاقہ میں اپنی بڑی طاقت بنالی۔ خلیفہ معتصم باللہ (180-227ھ) نے اس کی سرکوبی کے لیے ایک بڑی فوج بھیجی ۔ بابک خرمی جب مسلمانوں کےلشکر کے محاصرہ میں آکر تنگ ہوا تو اس نے یہ تدبیر کی کہ اس نے اس وقت کے رومی بادشاہ نوفل بن میکائیل (قیصر روم) کو ایک خفیہ خط بھیجا جو اپنی سلطنت کا بڑا حصہ کھو کر ترکی کے علاقہ میں مقیم تھا۔ بابک نے اس کو لکھا کہ معتصم باللہ نے اس وقت اپنی تمام فوجیں میرے مقابلہ پر روانہ کر دی ہیں۔ بغداد اور سامرہ فوجوں سے خالی ہو گئے ہیں۔ تمھارے لیے بہترین موقع ہے کہ تم خلافت بغداد پر حملہ کر کے ان سے اپنی سابق سلطنت چھین لو۔ شاہ روم اپنی ایک لاکھ فوج کے ساتھ روانہ ہوا۔ سب سے پہلے اس نے زبطرہ پر شب خون مارا جو ترکی کی سرحد پر واقع تھا۔ وہاں کے مردوں کو قتل کیا اور بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے لے گیا۔

یہ 29ربیع الثانی 223 ھ کا واقعہ ہے ۔ ایک شخص زبطرہ کے حادثہ کی خبرلے کر معتصم باللہ کے پاس بغداد پہنچا۔ واقعات بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ ایک عرب عورت کو رومیوں نے پکڑا اور اس کو کھینچ کر لے جانے لگے تو اس نے پکا را وامعتصماہ (ہائے معتصم) معتصم باللہ اس وقت مجلس طرب میں تھا۔ مگرجیسے ہی اس نے یہ خبر سنی لبیک لبیک کہتا ہوا فوراً وہ اپنے تخت سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ میں اس وقت تک آرام نہیں کروں گا جب تک عرب خاتون کی مدد نہ کرلوں۔ وہ اپنے محل پر چڑھا اور اس کے اوپر کھڑا ہوکر پکارا الرحیل الرحیل (کوچ ، کوچ) اس کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا اور کوچ کا نقارہ بجوا دیا۔ لشکر اور سرداران لشکر گروہ در گروہ آکر اس کے ساتھ شریک ہو گئے۔ وہ اس معاملہ میں اتنا سنجیدہ تھا کہ قاضی اور گواہ بلا کر اس نے وصیت لکھوائی کہ اگر میں جنگ سے واپس نہ آؤں تو میرا اثاثہ کس طرح تقسیم کیا جائے ۔

معتصم باللہ اپنے لشکر کے ساتھ زبطرہ پہنچا تو رومی وہاں سے بھاگ کر اپنے قلعہ بند شہر عمور یہ جاچکے تھے۔ معتصم باللہ آگے بڑھا اور اپنی فوجوں کو لے کر رومی علاقہ (ترکی) میں داخل ہو گیا۔ اس نے عموریہ کا محاصرہ کر لیا ۔ 55 روز کے محاصرہ کے بعد رومی فوجوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ معتصم باللہ نے عموریہ کی تمام شاہی اور فوجی تعمیرات کو ڈھا کر زمین کے برابر کر دیا ۔ قیصر روم نوفل نے بھاگ کر قسطنطنیہ میں پناہ لی۔ معتصم باللہ نے عرب خاتون کو رومی قید سے آزاد کرایا اور اس کو اس کے گھر پہنچا دیا(تاریخ ابن خلدون، جلد3، صفحہ327)۔

کسی معاشرہ میں ’’فساد‘‘ نہ ہونے کی سب سے بڑی ضمانت یہ ہے کہ اس کے افراد مظلوم کی پکار پر دوڑ پڑیں۔ اس کے برعکس، جہاں لوگوں کو مظلوم کی پکار سے دلچسپی نہ ہو، وہ صرف اس وقت بیان اور تقریر کا کرشمہ دکھانے کے لیے باہر آئیں جب کہ اس کے اندر اخباری اہمیت (نیوز ویلو) پیدا ہو چکی ہو، ایسے معاشرہ میں ہر وقت فساد کے اسباب پر ورش پاتے رہتے ہیں اور موقع پاتے ہی پھوٹ پڑتے ہیں ۔ آج لوگوں میں انفرادیت (self-interest) اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ ایک شخص خواہ کتنا ہی پکارے ، کوئی اس کی مدد کے لیے نہیں دوڑتا۔ حتی کہ وہ لوگ بھی اس کی مدد کے لیے اپنے اندر کوئی تڑپ نہیں پاتے جو بے انصافی کے خاتمہ کے نام پر اپنی تحریکیں چلارہے ہیں۔ لوگ ظلم اور بے انصافی کے نام پر تقریریں کرتے ہیں۔ مگر جب ایک واقعی مظلوم ان کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر پاتا ہے کہ ان مقر ر لیڈروں کو اس کی مدد پر پہنچنے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔

موجودہ فرقہ وارانہ فساد کا کم از کم ایک جزئی سبب یہ بھی ہے ۔ ایک مقام پر ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کو ستایا۔ اس نے اپنی قوم کے لیڈروں کو مدد کے لیے پکارا۔ مگر کوئی ایک شخص بھی اس کی مدد پر نہ اٹھا۔ اس واقعہ کا اس پر اس قدر شدید رد عمل ہوا کہ مسلمانوں سے اس کو نفرت ہوگئی ۔ اس نے ایک سازش کر کے اپنے مقام پر ایک فرقہ وارانہ فساد کرا دیا ۔ اور جب فساد کا ہنگامہ شروع ہوا تو اس کے دوران اس نے ان لوگوں کے گھر جلا ڈالے جن سے اس کو شکایت پیدا ہوگئی تھی۔ کسی معاشرہ کا سب سے بڑا فساد باہمی بے اعتمادی ہے اور انفرادی ظلم پر نہ دوڑنا معاشرہ کے اندر برائی پیدا کرتا ہے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom