فساد کیسے ہوتا ہے

کوئی فساد کس طرح شروع ہوتا ہے اور وہ کس طرح بڑھتا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے علی گڑھ اور مراد آباد کے فساد کی مثال لیجیے ۔ علی گڑھ میں ہر سال کشتی کا دنگل ہوتا ہے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں حصہ لیتے ہیں۔ اگست 1978کے دنگل میں مسلم پہلوان کو یہ شکایت ہوئی کہ اس کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ اس کی شکایت کا خاص نشانہ سریش بھورے تھا جس سے اس کی پہلے سے بھی رقابت چلی آرہی تھی۔ دنگل کی شکایت کے بعد مسلمان پہلوان نے طے کرلیا کہ سریش بھورے سے انتقام لینا ہے ۔ وہ اور اس کے ساتھی اسی فکر میں رہے۔ یہاں تک کہ 13کتوبر 1978 ی شام کو انصار احمد اوراس کے ساتھی سریش بھورے کو اکیلا پا گئے۔ انھوں نے اس کے اوپر چھرے سے حملہ کیا۔ سریش بھورے کو سخت زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں اس نے اپنے قاتلوں کے بارے میں نام زد بیان درج کرایا۔ وہ زخم سے جانبر نہ ہوسکا اور 15 اکتوبر 1978کو مر گیا۔

سریش بھورے کا مرنا شہر کے ہارے ہوئے فرقہ پرست لیڈروں کو سنہری موقع ملنا تھا ۔ انھوں نے سریش بھورے کا جلوس نکالا اور نعرہ لگایا کہ خون کا بدلہ خون انھوں نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے پورے شہر کی فضا خراب کر دی۔ یہاں تک کہ وہ فساد شروع ہوا جس نے علی گڑھ کو خاکستر بنا دیا ۔

 اب مراد آباد کو لیجیے۔ 1980کے آغاز میں یو پی اسمبلی کا جو الکشن ہوا اس میں کانگریس (آئی )کے امیدوار حافظ محمد صدیق بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ جن سنگھ (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے امیدوار ڈاکٹر ہنس راج چوپڑہ کو اتنے کم ووٹ ملے کہ ان کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ حافظ محمد صدیق کو نہ صرف مسلمانوں کے ووٹ ملے بلکہ ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ان کو ووٹ دیا۔ ہارے ہوئے سیاست دانوں کو اس واقعہ کا شدیدغم تھا۔ وہ اسی موقع کی تلاش میں تھے ۔ ان کی خوش قسمتی سے جلد ہی ان کو یہ موقع ہاتھ آگیا۔ 27 جولائی 1980 کو سرائے کشن لال میں مہتروں کی ایک بارات جا رہی تھی۔ یہ شام کا وقت تھا اور مغرب کی اذان ہونے والی تھی ۔ بارات کے ساتھ ان کے رواج کے مطابق ناچ اور با جا بھی تھا۔ اس وقت چند مسلمانوں نے آگے بڑھ کر بارات کو روکا اور کہا کہ مسجد کے پاس شوربند کرو اور بارات کو دوسرے راستہ سے لے جاؤ ، بارات والے اس کے لیے راضی نہ ہوئے ۔ اس پر تکرار ہوگئی۔ یہاں تک کہ با قاعدہ لڑائی شروع ہو گئی ۔ اس لڑائی میں مزید مسلمان شریک ہو گئے۔ وہ مہتروں کا پیچھا کرتے ہوئے ایک فرلانگ کے فاصلہ پر مہتر بستی تک گئے ، وہاں انھوں نے مہتروں کو مارا اور مکانات کو آگ لگائی۔

اب ڈاکٹر ہنس راج چوپڑہ اور ان کے جیسے دوسرے لوگوں کی باری تھی ۔ انھوں نے مراد آباد اور اطراف مراد آباد میں اشتعال انگیز تقریریں کر کے فضا کو انتہائی حد تک مکدر کر دیا۔  اس کے بعد 13 اگست 1980عید کا دن تھا۔ اس دن عید گاہ میں سور کے داخلہ سے مسلمان مشتعل ہو گئے اور انھوں نے پولس پر پتھر مارے۔ فضا تیار تھی ۔ اس کے فوراً بعد مکمل پیمانہ پر فساد شروع ہوگیا۔ اور مراد آباد کی مسلم آبادی خاک و خون کی نذر ہوکر رہ گئی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom