یہ اسلام نہیں
ایک مقام کے کچھ مسلمانوں سے میری ملاقات ہوئی۔ وہاں کچھ دن پہلے ایک چھوٹا سا فرقہ وار انہ فساد ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے ذوق کے مطابق ’’صبر‘‘ کا طریقہ اختیار کرنے کی بات کی۔ انھوں نے کہاکہ ہمارے یہاں تو مسلمانوں کی طرف سے کوئی اشتعال کا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ دوسری قوم کے لوگ خواہ مخواہ ہم سے لڑ گئے۔ میں نے کہا کہ لڑائی کیسے پیش آئی ، انھوں نے قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہاں ہماری ایک مسجد ہے۔ مسجد سے قریب ہی غیر مسلم بھائیوں کی عبادت گاہ ہے۔ ہم نے مسجد میں اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر لگا یا توانھوں نے بھی اپنے عبادتی مواقع پر گھنٹی بجانی شروع کردی جس کی آواز مسجد تک آتی تھی۔ ہم نے سنجیدگی کے ساتھ ان سے کہا کہ آپ لوگ ہماری نماز کے اوقات میں گھنٹی نہ بجائیں ۔ وہ نہیں مانے ۔ جب کئی بار ان سے کہا گیا تو وہ بگڑ گئے۔ اس کے بعد جھگڑا ہوگیا۔
میں نے کہا کہ یہ کون ساشرعی مسئلہ ہے کہ نماز کے اوقات میں کوئی غیر قوم کا آدمی اپنی عبادت گاہ میں گھنٹی نہ بجائے ۔ یہ نہ کہیں قرآن میں لکھا ہوا ہے اور نہ حدیث میں ہے اور نہ ہمارے فقہا میں سے کسی کا یہ مسلک ہے ۔ حتی کہ اسلامی حکومت کے پورے زمانہ میں بھی کسی مسلم حکمراں کی طرف سے یہ ہدایت جاری نہیں کی گئی کہ نماز کے اوقات میں دوسری قوموں کے عبادت خانہ میں ناقوس اور گھنٹیاں نہ بجائی جائیں ۔ ایسی حالت میں آپ کیوں اس پر برہم ہوتے ہیں۔ کوئی اگر گھنٹی بجاتا ہے تو بجانے دیجیے۔ اس سے نہ نماز میں کوئی خلل واقع ہوتا اور نہ شریعت نے ہمیں ایسے کسی حکم کا مکلف کیا ہے ۔ تاہم مذکورہ بزرگ نے میری بات نہیں مانی، ان کے پاس اگرچہ میری دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا مگر وہ اپنی بات کو پُر جوش انداز میں بدستور دہراتے رہے ۔
اس ملک کے اکثر فسادات اسی قسم کی باتوں سے شروع ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ جب شریعت نے ہمیں ایسے کسی حکم کا پابند نہیں کیا ہے تو ہم کیوں چاہتے ہیں کہ ہماری مسجد کے سامنے کوئی با جے کا جلوس نہ گزرے۔ کوئی اس کے پاس گھنٹی نہ بجائے۔ اس کی وجہ تمام تر قومی ہے، نہ کہ دینی مسلمانوں نے پچھلے سو سال کی سیاست کے نتیجہ میں انھیں چیزوں کو اپنی قومی عظمت کا نشان بنا لیا ہے۔ وہ اس کو اپنی ساکھ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ مسجد کے پاس ایسا کوئی واقعہ ہو تو وہ اس میں اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ اور اگر وہ اس کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی قوم کی عزت کو اونچا کیا۔
یہ سراسر جاہلانہ طریقہ ہے۔ یہ طریقہ تم کو خدا ور رسول نے نہیں بتایا۔ بلاشبہ یہ ہم کو نفس نے سکھایا ہے۔ نفس چاہتا ہے کہ ہم اپنے مدعو کے خلاف ایسے ہنگامے کرتے رہیں جس سے ہمارے اور دوسروں کے درمیان قومی نفرت تو خوب بڑھے، مگر داعی اور مدعو کے رشتے بھی قائم نہ ہوں۔ کیونکہ ایسے ماحول میں جہاں داعی اور مدعو کے درمیان شبہ اور نفرت کی فضا قائم ہو وہاں کبھی اسلام کی دعوت کا کام نہیں ہو سکتا۔ اس قسم کی قومی معرکہ آرائی پر ہم کو اللہ کے یہاں انعام تو کیا ملے گا، البتہ شدید اندیشہ ہے کہ ہم اپنی قومی نادانیوں کو اسلام کا نام دینے کی وجہ سے کہیں خدا کی پکڑ میں نہ جائیں ۔