صبر کا طریقہ
فساد کا کوئی سبب پیدا ہو تو اس وقت ایک طریقہ صبر کا ہے اور دوسرا طریقہ اشتعال کا ۔ ایسے موقع پر مشتعل ہونا فساد کو بڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ذہن کو قابو میں رکھ کر سوچا جائے اور صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے تو مسئلہ جہاں تھا وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں ہم چند واقعات لکھتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صبر کا طریقہ اختیار کرنا کس طرح فساد کی آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔
1۔ غالباً 1973کی بات ہے۔ دار العلوم ندوہ (لکھنو) کے قریبی محلہ میں ایک غیر مسلم کی گائے تھی۔ ایک مقامی مسلمان نے کسی وجہ سے گائے کو مارا۔ اتفاق سے چوٹ کسی نازک مقام پر لگ گئی اور گائے مرگئی ۔ غیر مسلم حضرات کو جب معلوم ہوا کہ ان کی گائے ایک مسلمان نے مار ڈالی ہے تو پورے علاقہ میں اشتعال پیدا ہوگیا سیکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم لوگ جمع ہو گئے۔ سب سے قریبی مسلم مرکز ندوہ تھا۔ وہ لوگ ندوہ میں گھس آئے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے لگے۔
یہ بڑا نازک وقت تھا۔ اندیشہ تھا کہ وہ لوگ ندوہ کو آگ لگا دیں اور پھر سارے شہر میں فساد برپا ہو جائے ۔ ندوہ کے ذمہ داروں نے اس موقع پر مشورہ کیا۔ طے ہوا کہ اس مشتعل مجمع کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ گائے کے قاتل کو مجمع کے حوالے کر دیا جائے۔ اگر چہ یہ ایک خطرناک کام تھا مگر شہر کو آگ اور خون سے بچانے کی کوئی دوسری تدبیر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ ذمہ دار حضرات مذکورہ مسلمان کے پاس گئے جو غالباً ندوہ کے ایک کمرہ میں چھپا ہوا تھا۔ اس سے کہا کہ اس وقت ندوہ اور سارہ اشہر خطرہ میں ہے ۔ مگر ان کا سارا غصہ تمھاری وجہ سے ہے۔ اگر وہ تم کو پا جائیں تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اگر چہ یہ تمھارے لیے ایک خطرہ کی بات ہے۔ تاہم امید ہے کہ اللہ کی مدد حاصل ہوگی اور تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ آخر کار وہ راضی ہو گیا۔ اور نکل کر مجمع کے سامنے آگیا ۔ اس نے کہا کہ آپ کی گائے میں نے ماری ہے اس لیے آپ میرے ساتھ جو چاہیں کریں۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ میں نے مارنے کی نیت سے نہیں مارا تھا بلکہ اس کو بھگانے کے لیے مارا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ وہ مرگئی۔ مجمع نے جب گائے کے قاتل کو دیکھا اور اس کی باتیں سنیں تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ وہ لوگ جو ندوہ کو پھونکنے اور اور شہر کی مسلم آبادی کو ویران کرنے پر تلے ہوئے تھے وہ صرف اتنی سی بات پر راضی ہو گئے کہ گائے کا قاتل گائےکی قیمت ادا کر دے۔ قیمت فوراً ادا کردی گئی اور مسئلہ اسی وقت ختم ہو گیا۔
2۔ فیروز جھر کا ضلع گڑ گاؤں (ہریانہ) کا ایک قصبہ ہے۔ قصبہ میں تقریباً تمام دکانیں غیرمسلم حضرات کی ہیں۔ مگر اطراف کے تمام دیہاتوں میں مسلمانوں (میووں) کی اکثریت ہے۔ فیروز پور کے بازار میں زیادہ تریہی مسلمان خریداری کرتے ہیں ۔ 1980 کے آغازمیں یہ واقعہ ہوا کہ ایک غیرمسلم خاندان کی لڑکی گھر سے غائب ہوگئی۔ لوگوں کو شبہ ہوا کہ چھ مسلم نوجوانوں نے ایسا کیا ہے ۔ چنانچہ غیرمسلم حضرات نے کافی شور وغل کیا ۔ پولس میں رپورٹ کرکے کچھ مسلمانوں کو گرفتار کرایا۔
ایک روز احتجاجی ہڑتال کی ۔بسوں کو روک کر مسلم مسافروں کو پریشان کرنا شروع کیا۔ ہندی اخبارات میں اغوا کی رپورٹ شائع کرائی۔ اس طرح کے واقعات نے علاقہ میں سخت اشتعال پیدا کر دیا۔ اور اندیشہ ہوگیا کہ کسی بھی دن فساد برپا ہو جائے اور اس کے بعد سارا علاقہ آگ اور خون کی نذر ہو جائے ۔
اس علاقہ میں مسلمانوں کی پنچایت قائم ہے اور اہم قومی مسائل پر پنچائتی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پنچائت کا اعلان ہوا تا کہ باہمی مشورہ سے اقدام کا فیصلہ کیا جائے ۔ ایک خاص تاریخ کو علاقہ کے چودھری اور ذمہ دار مسلمان کئی سو کی تعداد میں فیروز پور کے پاس ایک مقام پر جمع ہوئے کئی گھنٹہ کی گفتگو کے بعد بالآخر بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا ۔ طے ہوا کہ مسلمان کوئی براہ راست کارروائی نہ کریں ۔بس خاموشی سے یہ کریں کہ غیرمسلم دوکان داروں کے یہاں سے خریداری کرنا بالکل بند کر دیں۔ کچھ لوگ نگراں مقرر ہوئے جو بازار کے تمام راستوں پر بیٹھیں اور یہ دیکھتے رہیں کہ کوئی مسلمان خریداری کے لیے غیر مسلم دکان داروں کے یہاں نہ جائے۔
اگلے دن سے بائیکاٹ شروع ہو گیا۔ میووں کے نزدیک برادری کے فیصلہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، اس لیے بائیکاٹ کا فیصلہ صد فی صد کامیاب رہا۔ فیروز پور کا بازار نیز اطراف کے بازار جو روزانہ بھرے رہتے تھے، بالکل سونے ہو گئے ۔ دکان دار سارے دن بے کار رہنے لگے۔ ابھی بائیکاٹ کو صرف تین دن گزرے تھے کہ غیر مسلم دکاندار چیخ اٹھے۔ غیر مسلم دکان داروں نے باہم مشورہ کر کے علاقہ کے ذمہ دار مسلمانوں کو بلایا اور مسلمانوں اور غیرمسلموں کی ایک مشتر کہ پنچایت کی ۔ غیر مسلم حضرات نے کہا کہ ہم آپ کے بھائی ہیں۔ جو کچھ ہوا اس کو بھول جائے اور ہماری کوتاہی معاف کیجیے اور بائیکاٹ کو ختم کر دیجیے۔ مسلمانوں نے اس پیش کش کو قبول کر لیا اور چوتھے دن بائیکاٹ ختم ہو گیا اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جو کاروائیاں کی جا رہی تھیں وہ بھی ختم ہوگئیں۔
3۔علی گڑھ یونیورسٹی کیمپس میں ستمبر 1980میں یہ واقعہ ہوا کہ ہادی حسن ہال کے پیچھے ایک جھاڑی میں دوسرے فرقہ سے تعلق رکھنے والے چار آدمی ایک سور کاٹ رہے تھے ۔ بظاہر ان کا منصوبہ یہ تھا کہ سور کے ٹکڑے یو نیورسٹی میں پھینک کر وہاں کے مسلمانوں کو مشتعل کر دیا جائے اور اس طرح بہا نہ پیدا کر کے یو نیورسٹی کے علاقہ میں فساد کیا جائے۔ اتفاق سے کچھ مسلم طلبا نے اس کو دیکھ لیا۔ انھوں نے فوراً یو نیورسٹی پر اکٹر کو مطلع کیا۔ پراکٹر نے اسی وقت پولیس کو ٹیلی فون کیا۔ پولس اطلاع ملتے ہی فوراً پہنچ گئی اور چاروں آدمیوں کو عین موقع پر گرفتار کر لیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لوگوں کی یہی دانش مندی تھی جس کی وجہ سے ایسا ہوا کہ1979-80میں علی گڑھ میں مہینوں تک فساد کا سلسلہ جاری رہا مگر سارا فساد شہر کے علاقہ میں ہوا اور ریلوے لائن کے دوسری طرف یو نیورسٹی کا وسیع علاقہ بالکل محفوظ رہا۔ علی گڑھ کا یہ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر تخریبی سازش کو دانش مندی کے ذریعہ غیر موثر بنایا جا سکتا ہے ۔
یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ فساد کے اسباب مکمل طور پر پیدا ہونے کے باوجود اس کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ کوئی واقعہ خواہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو ہمیشہ اس کے اندر اس کی کاٹ کے اسباب بھی موجود ہوتے ہیں۔ اور یہ ممکن ہوتا ہے کہ ان کو استعمال کر کے اس کو غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ مگر اس امکان کو استعمال کرنے کی لازمی شرط صبر ہے۔ واقعہ خواہ کتناہی خلاف مزاج ہو مگر دانش مندی یہ ہے کہ اس کو دیکھ کہ آدمی مشتعل نہ ہو۔ مشتعل آدمی کی عقل کھوئی جاتی ہے ۔ وہ کسی معاملہ کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے وہ اس کو دفع کرنے کی صحیح منصوبہ بندی بھی نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد انتہائی ضروری ہے کہ آدمی مشورہ کرے۔ مشورے سے بیک وقت دو فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں کئی آدمیوں کی سوچ اور تجربات شامل ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے معاملہ کو زیادہ وسعت کے ساتھ سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں متاثر ذہن کے ساتھ غیر متاثرہ ذہن کی رائے بھی شامل ہو جاتی ہے۔ اس لیے جو فیصلہ ہوتا ہے وہ ٹھنڈے ذہن سے سوچا سمجھا فیصلہ ہوتا ہے، نہ کہ مغلوب زمین کے تحت کیا ہوا فیصلہ۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یک طرفہ الزام بازی کا طریقہ ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔ بلکہ فیاضی کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا جائے۔ انسان کی یہ نفسیات ہے کہ اگر وہ دیکھتا ہے کہ مقابل کا آدمی اپنی غلطی کو نہیں مان رہا ہے تو اس کے متعلق اس کے اندر انتقام کے جذبات امنڈتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آدمی دیکھے کہ اس کا حریف اپنی غلطی کو کھلے دل سے مان رہا ہے تو اچانک اس کے اندر رحم اور عفو کے جذبات امنڈ آتے ہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ غلطی کا اعتراف کر کے اس نے اپنی سزا آپ دے لی ہے ، اب میں مزید سزا اسے کیا دوں۔
یہ بھی حد درجہ ضروری ہے کہ قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کی جائے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں یا قاعدہ قانون کی حکومت قائم ہو وہاں قانون اپنے ہاتھ میں لینا اپنے کو مجرم کی صف میں کھڑا کرنا ہے ۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر آدمی اپنے آپ کو بیک وقت دو فریقوں کا مد مقابل بنا لیتا ہے ۔ ایک وہ شخص جس نے کوئی شر کیا تھا ، اور دوسرے ملک کا انتظامیہ۔ اس کے برعکس اگر آپ معاملہ کو فوراًانتظامی ذمہ داروں کے حوالے کر دیں تو آپ درمیان سے ہٹ جاتے ہیں۔ اب سارا معاملہ شرپسند اور انتظامیہ کے درمیان ہو جاتا ہے۔
آخری ضروری چیز اتحاد ہے۔ کوئی بھی اجتماعی تدبیر اجتماعی طاقت ہی سے کامیاب ہوتی ہے اور اتحاد ہی کا دوسرا نام اجتماعی طاقت ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بات بخوبی سمجھ لینا چاہیےکہ اتحاد اس طرح کبھی نہیں ہوتا کہ تمام لوگوں کی رائیں ایک ہو جائیں۔ ایسا اتحاد موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔ اتحاد در اصل اختلاف رائے کے باوجود متحد ہونے کا نام ہے،نہ کہ اختلاف رائے نہ ہونے پر متحد ہونے کا۔ اگر ہم اپنے حریف کے مقابلہ میں موثر بننا چاہتے ہیں تو ہم کو رائے کی قربانی دینے پر تیار ہونا پڑے گا۔ رائے کی قربانی ہی پہ اتحاد قائم ہوتا ہے اور جہاں اتحاد موجود ہو وہاں کسی شریر کی شرارت کا کوئی گزر نہیں۔
تدبیر وہی ہے جو خاموش تدبیر ہو کسی ناخوش گوار صورت حال کے پیش آنے کے بعد جب آدمی شور و غل کرنے لگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جذبات سے مغلوب ہو گیا ہے۔ اور جذبات سے مغلوب انسان کبھی کوئی گہری تدبیر سوچ نہیں سکتا۔ گہری تدبیر گہرے غور و فکر سے حاصل ہوتی ہے ، جب کہ شور و غل آدمی کو اس قابل ہی نہیں رکھتا کہ کہ وہ کسی معاملہ میں گہرائی کے ساتھ غور کر سکے۔