تمہید
کسی کے گھر میں آگ لگ جائے تو وہ اس کو بجھانے کے لیے فوراً حرکت میں آجاتا ہے ۔ تاہم ایسے موقع پر حرکت میں آنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس دنیا کے مالک نے آگ بجھانے کا جو اصول مقرر کیا ہے اس کے مطابق آگ بجھانے کی کوشش کی جائے۔ دوسرے یہ کہ جوش میں آکر کوئی خود ساختہ حرکت شروع کر دی جائے۔ انسان آزاد ہے کہ دونوں میں سے جو عمل چاہے اختیار کرے۔ مگر یہ یقینی ہے کہ دونوں کا انجام اس دنیا میں یکساں نہیں ہو سکتا۔ اللہ نے جس آگ کو بجھانے کے لیےپانی چھڑکنے کا قانون مقرر کیا ہے اس کو آپ پٹرول چھڑک کر نہیں بجھا سکتے ۔ ایسی ہر کوشش صرف اپنی مصیبت میں اضافہ کے ہم معنی ہوگی ۔
یہی معاملہ ز ندگی کے دوسرے مسائل کا بھی ہے ، خدا نے اپنی دنیا میں کامیابی کا راز اگر صبر میں رکھا ہے تو آپ اس کو جلد بازی کے ذریعہ حاصل نہیں کر سکتے ۔ خدا نے اگر ایک واقعی نتیجہ کو عملی جدوجہد سے وابستہ کر دیا ہے تو آپ تقریروں اور بیانات کی دھوم مچا کر اس نتیجہ کو اپنے لیےبرآمد نہیں کر سکتے ۔ خدا نے اس دنیا کے مسائل کا حل اگر حقیقت پسندانہ طریق عمل میں رکھا ہے تو آپ جذباتیت کے طریقہ پر چل کر اپنے مدعا کو نہیں پا سکتے۔ خدا نے اگر افراد کی خاموش تعمیر میں اصلاح کا راز رکھا ہے تو آپ اجتماعی شور دغل کے ذریعہ اصلاح کے مقصد تک نہیں پہنچ سکتے ۔ خدا اگر یہ چاہتا ہے کہ آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اپنا کام بنائے تو آپ دوسروں کو ملزم ثابت کر کے اپنا کام نہیں بنا سکتے۔ خدا نے اپنے قائم کیے ہوئے نظام میں اگر یہ اصول مقرر کیا ہو کہ جو لوگ پھول کے مالک بننا چاہتے ہیں،وہ کانٹوں سے اپنا دامن بچا کر پھول کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ تو آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ ایک ایک کانٹے سے الجھیں اور اس کے باوجود ترو تازہ پھول آپ کے حصہ میں آجائے ۔
زندگی کی سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہیں بلکہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں ہیں۔ ہم دنیا میں قائم ہوئے خدائی نظام سے موافقت کر کے توسب کچھ حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے مقررہ نظام سے ہٹ کر کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے ۔ یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس لیےیہاں ہر انسان کو آزادی حاصل ہے۔ مگر یہ آزادی صرف عمل کی آزادی ہے، نہ کہ نتیجہ بر پا کرنے کی ۔ ہم بلاشبہ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں مگر ہم کو یہ قدرت نہیں دی گئی ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق جو نتیجہ چاہیں ظاہر کر دیں ۔ ہم آزاد ہیں کہ دریا میں چھلانگ لگائیں یا نہ لگائیں۔ لیکن اگر ہم کو تیر نا نہیں آتا اور ہم گہرے دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں تو ہم کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اپنے کو ڈوبنے سے بچائیں۔ یاد رکھیے یہ دنیا کسی عذر کو قبول کرنے کے لیےسب سے زیادہ بے رحم واقع ہوئی ہے، خواہ ہم نے اپنے عذر کو کتنے ہی شاندار الفاظ میں مرتب کر رکھا ہو۔
وحید الدین 7اکتوبر 1980